کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 530
اضافے کے سبب دور کے احوال وظروف میں تبدیلی اور لوگوں کی ضروریات میں اضافہ ہو چکا تھا۔[1] تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام کی گورنری پر دس ہزار (۱۰۰۰۰) دینار سالانہ دیتے تھے، نیز اسلا می لشکر کے امراء اور بستیوں کے ذمہ داروں کو ان کی ذمہ داریوں اور ملکی غلہ جات کی آمدنی کے حساب سے۹ ہزار، ۸ ہزار اور ۷ ہزار دینار کے درمیان وظیفہ دیتے تھے۔[2] آپ کے بعض گورنران اپنی گورنری وامارت کی کار گزاریوں کی تنخواہ لینا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن آپ انہیں لینے کا مشورہ دیتے رہے، اسی مناسبت سے ایک مرتبہ آپ نے اپنے ایک گورنر سے کہا: کیا بات ہے کہ تم مسلمانوں کے کئی کاموں کے ذمہ دار ہو، لیکن جب اپنی محنت کا معاوضہ دیے جاتے ہو تو اسے لینا ناپسند کرتے ہو، اس سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ انہوں نے کہا: میرے پاس گھوڑے ہیں، غلام ہیں، میں خیریت وکشادگی میں ہوں، میں چاہتا ہوں کہ میرا معاوضہ مسلمانوں پر صدقہ کر دیا جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ایسا نہ کرو، جو تم چاہتے ہو میں نے بھی یہی چاہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطیہ دیتے تھے اور میں کہتا تھا: اسے مجھ سے زیادہ ضرورت مند شخص کو دے دیجیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’اسے لے لو، اپنا مال بنا لو اور پھر اسے صدقہ کرنا، بغیر مطالبہ اور لالچ کیے اس قسم کا جو مال تمہارے پاس آئے اسے لے لو اور جو اس طرح نہ ہو اسے نہ لو۔‘‘[3] بہرحال گورنران وافسران کو تنخواہوں اور عطیات سے نوازنا اور انہیں عوام کی دولت سے مستغنی کرنا ایک اسلامی اصول تھا، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ کیا تھا، اور آپ کے بعد خلفائے راشدین اس پر عمل پیرا رہے۔ انہوں نے اپنے افسران کو رعایا کے مال سے بے نیاز کیا اور انہیں حکومتی کار گزاریوں اور اسلامی سلطنت کی مصلحت ومفاد کے لیے فارغ کیا۔[4] ۸: عمال اور گورنروں کی بیماری کے وقت ان کا علاج کرانا: عہد فاروقی میں بیت المال کے خازن معیقیب رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بیمار ہوئے، تو عمر رضی اللہ عنہ جس کسی کے بارے میں سنتے کہ اس کے پاس ان کا علاج ہے اسے تلاش کرتے اور علاج کراتے، اتفاق سے آپ کے پاس یمن سے دو آدمی آئے، آپ نے ان سے پوچھا: کیا آپ لوگوں کے پاس اس نیک آدمی کے لیے کوئی علاج ہے؟ اس کی تکلیف بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ان دونوں نے کہا ایسا کوئی علاج جو اس بیماری کو بالکل ختم کر دے اس کی طاقت تو ہم نہیں رکھتے۔ البتہ ایک دوا سے ہم ان کا علاج کر دیں گے جس سے مرض میں اضافہ نہ ہو گا اور انہیں آرام مل جائے گا۔ آپ نے فرمایا: مرض میں مزید اضافہ نہ ہو، یہیں موقوف ہو جائے تو یہی بڑی عافیت
[1] الخراج، أبویوسف: ص۱۲۲۔ [2] الولایۃ علی البلدان: ۱/۱۴۹۔ [3] تاریخ المدینۃ: ۲/۶۹۴، الولایۃ علی البلدان: ۱/۱۴۹۔ [4] الولایۃ علی البلدان: ۱؍۱۵۰۔ [5] الطبقات الکبرٰی: ۴/۲۶۱۔ [6] سیر أعلام النبلاء: ۱/۵۴۷۔