کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 525
اخراجات کی ضرورت پڑی اور میرے پاس کچھ نہ تھا ایسے نازک وقت میں میں نے اپنے بھائی یعنی معاذ رضی اللہ عنہ سے کچھ قرض لیا اور انہوں نے مجھے قرض دیا ہے۔ اگر میرے پاس مسند، قالین ہوتی بھی تو میں اپنے مسلمان بھائیوں اور ہم نشینوں کو چھوڑ کر اس پر نہ بیٹھتا، بلکہ میں اس پر اپنے مسلمان بھائی کو بٹھاتا۔ اس لیے کہ ممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجھ سے زیادہ بہتر ہوں، ہم سب اللہ کے بندے ہیں، زمین پر چلتے ہیں، زمین پر بیٹھتے ہیں، زمین پر کھاتے ہیں، زمین پر سوتے ہیں، اس سے اللہ کے یہاں ہمارا مقام کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اس تواضع کی وجہ سے ہمارا ثواب بڑھا دیتا ہے، ہمارا مرتبہ بلند کر دیتا ہے اور ہم اس عمل کے ذریعہ اللہ کے سامنے تواضع وخاکساری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘[1] ۳: ورع: عہد فاروقی کے بہت سارے گورنر اس بات کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ وہ کسی طرح حکومتی ذمہ داری سے دور رہیں، عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ سے بصرہ کی گورنری سے استعفیٰ پیش کیا، لیکن آپ نے ان کا استعفیٰ نامنظور کر دیا۔[2] اسی طرح ’’کسکر‘‘ کے گورنر نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے عمر رضی اللہ عنہ کو گورنری سے استعفیٰ پیش کیا اور جذبہ شہادت سے معمور ہو کر جہاد میں شرکت کی اجازت مانگی۔[3]اسی طرح اور بہت سارے صحابہ کو عمر رضی اللہ عنہ نے گورنر بنانا چاہا لیکن ان لوگوں نے انکار کر دیا۔ آپ نے جب زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے مصر کا گورنر بنانا چاہا کہ اے ابوعبداللہ! کیا تم مصر کا گورنر بننا پسند کرو گے؟ تو زبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: مجھے اس کی قطعاً ضرورت نہیں میں مجاہد اور مسلمانوں کا مددگار بن کر جانا چاہتا ہوں۔[4]اسی طرح آپ نے جب ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ’’حمص‘‘ کے سابق امیر کی وفات کے بعد گورنر بنانا چاہا تو آپ نے یہ منصب قبول کرنے سے انکار کر دیا۔[5] ۴: سابق گورنروں کا احترام: عہد فاروقی کے گورنران کی ایک امتیازی صفت یہ تھی کہ وہ اپنے سابق گورنروں کی عزت واحترام کرتے تھے۔ عہد فاروقی ہی نہیں بلکہ جملہ خلفائے راشدین کے بیشتر گورنران کی یہ نمایاں خوبی تھی، مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ، ابوعبیدہ بن جراح وغیرہ پر شام کے گورنر بن کر آئے تو آپ نے قطعاً یہ گوارا نہ کیا کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے کر کے خود نماز کی امامت کریں اور اسی طرح جب شام کی اسلامی افواج کی سپہ سالاری سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے ان کی جگہ پر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کے احترام
[1] الولایۃ علی البلدان: ۲/۵۳۔