کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 522
تھا۔ احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں کہ: میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، آپ نے تقریباً ایک سال کے لیے مجھے اپنے پاس روک لیا اور آخر میں مجھ سے کہا: اے احنف! میں نے تم کو آزما لیا اور جانچ لیا۔ میں نے دیکھا کہ تمہارا ظاہر بہت اچھا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ باطن بھی ظاہر ہی کی طرح ہو گا۔ ہم آپس میں باتیں کرتے تھے کہ اس امت کو ہر چالاک وہوشیار منافق ہلاک کرے گا۔ پھر آپ نے ان سے کہا: کیا تم جانتے ہو میں نے تم کو کیوں روک رکھا تھا؟ اس کے بعدبتایا کہ تمہارا امتحان مقصود تھا۔ پھر آپ نے انہیں گورنر بنا دیا۔[1] آپ نے احنف کو کئی نصیحتیں کیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ اے احنف! جو بہت زیادہ ہنستا ہے اس کا رعب کم ہو جاتا ہے، جو مذاق کرتا ہے اس کی ہنسی اڑائی جاتی ہے اور جو کسی چیز کی کثرت کرتا ہے وہ اسی سے معروف ہو جاتا ہے۔ جو بہت زیادہ بولتا ہے اس سے لغزش زیادہ سرزد ہوتی ہے اور جس کی لغزشوں میں زیادتی ہوتی ہے اس سے حیا وشرم چھن جاتی ہے اور جس سے حیا وشرم چھن جاتی ہے اس سے ورع و تقویٰ ختم ہو جاتا ہے اور جس سے ورع وتقویٰ ختم اور اس کا دل مر دہ ہو جاتا ہے۔[2] ۱۳: مقامی لوگوں کو گورنر بنانا: سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیاست کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ آپ عموماً مقامی لوگوں ہی کو رعایا کا گورنر مقرر کرتے تھے، بشرطیکہ وہ گورنری کے لیے زیادہ مناسب اور مصلحت کے موافق رہے ہوں، جیسا کہ جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کو قوم بجیلہ کا اس وقت حاکم بنایا جب انہیں عراق روانہ کیا۔[3] اسی طرح سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو مدائن، نافع بن حارث رضی اللہ عنہ کو مکہ اور عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو طائف والوں کا گورنر مقرر کیا۔ غالباً اس طرز سیاست کے پیچھے بعض مخصوص مقاصد کا حصول تھا جنہیں دوسروں کے بالمقابل مقامی لوگ ہی پورا کر سکتے تھے۔[4] ۱۴: قرار داد خلافت: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مشہور ہے کہ گورنروں کے انتخاب کے سلسلہ میں اہل شوریٰ سے مشورہ لینے اور گورنر نامزد کر دینے کے بعد ایک قرارداد تیار کرتے تھے، اکثر مؤرخین نے اسے معاہدۂ تقرری کا نام دیا ہے۔ ہم مجازی طور پر اسے قرار داد خلافت کا نام دے سکتے ہیں۔ افسران و گورنران کی تقرری کے وقت آپ کے تیار کردہ حلف نامے کی متعدد عبارتیں تاریخی کتابوں میں ملتی ہیں۔[5]البتہ جس بات پر تقریباً تمام مؤرخین متفق نظر آتے ہیں وہ یہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب کسی کو افسر یا گورنر مقرر کرتے تو مہاجرین وانصار کی ایک جماعت کو گواہ بناتے اور عہدیداروںسے قرار داد میں درج کردہ شرائط کی پابندی کرنے کا عہد لیتے۔[6] بسا اوقات گورنری کے
[1] التاریخ الاسلامی: ۱۹،۲۰/ ۲۶۸۔ [2] عصر الخلافۃ الرشدۃ: ص۱۱۴۔ [3] فرائد الکلام: ص ۱۶۵۔ [4] فرائد الکلام: ص۱۶۵۔ [5] الولایۃ علی البلدان: ۱/۲۸۔