کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 52
میں لیے قرآن پڑھ رہے تھے۔ جب عمر کے آنے کا احساس ہوا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور قرآن کو اسی حالت میں بھول کر چھپنے لگے۔ جب آپ داخل ہوئے اور آپ کی بہن نے آپ کو دیکھا تو چہرہ سے غصے کو بھانپ لیا، جلدی سے صحیفہ کو اپنی ران کے نیچے چھپا لیا۔ آپ نے کہا: ابھی مبہم اور پست آواز جو میں نے تمہارے پاس سنی یہ کون سی بات تھی۔ درحقیقت وہ لوگ سورہ ’’طٓہ‘‘ کی تلاوت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ہماری آپس کی بات کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی۔ آپ نے کہا: شاید کہ تم دونوں صابی (دین بدل دینے والے) ہو گئے ہو۔ ان کے بہنوئی نے کہا: تمہاری کیا رائے ہے اگر حق تمہارے دین کے علاوہ دوسری جگہ ہو۔ اتنے میں عمر ( رضی اللہ عنہ ) اپنے بہنوئی سعید رضی اللہ عنہ پر چڑھ دوڑے اور ان کی داڑھی کو پکڑ لیا۔ پھر دونوں نے اٹھا پٹک کی۔ عمر رضی اللہ عنہ سخت طاقتور تھے۔ آپ نے سعید کو زمین پر پٹخ دیا اور خوب روندا، پھر ان کے سینہ پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں آپ کی بہن آگئیں اور آپ کو اپنے شوہر سے دور کرنے لگیں۔ آپ نے ان کو تھپڑ رسید کیا جس سے ان کا چہرہ خون آلود ہوگیا۔ بہن نے غصہ کی حالت میں کہا: اے اللہ کے دشمن! کیا تو مجھے اس لیے ماررہا ہے کہ میں اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتی ہوں؟ آپ نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: جو تجھے کرنا ہے کرلے۔ (( أشہد أن لا إلٰہ الا اللّٰه وأن محمدا رسول اللّٰه ۔)) ’’میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ تیری مرضی کے خلاف ہم اسلام لاچکے ہیں۔ جب عمر نے ان سے یہ باتیں سنیں تو شرمندہ ہوئے اور ان کے شوہر کے سینے سے اتر گئے اور بیٹھ گئے، پھر کہا: تمہارے پاس جو صحیفہ ہے مجھے دو، میں اسے پڑھوں گا۔ آپ کی بہن نے کہا: میں ایسا نہیں کروں گی۔ آپ نے کہا: تمہاری بربادی ہو! تمہاری بات نے میرے دل کو متاثر کیا ہے۔ مجھے صحیفہ دو، میں اسے دیکھ تو لوں، میں تجھے یقین دلاتا ہوں کہ اس میں خیانت نہیں کروں گا۔ تو اسے جہاں چاہے محفوظ رکھ لینا۔ انہوں نے کہا: تم ناپاک ہو اور { لَا یَمَسَّہُ اِلَّا الْمُطَّہَّرُوْنَ } (البقرۃ:۷۹) ’’اسے صرف پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔‘‘ جاؤ غسل کرو یا وضو کرلو۔ آپ غسل کرنے گئے، پھر اپنی بہن کے پاس لوٹ کر آئے۔ انہوں نے آپ کو صحیفہ دیا۔ جس میں ’’طٓہ‘‘ اور دوسری سورتیں تھیں۔ آپ نے اس میں دیکھا: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ جب الرحمن الرحیم پر پہنچے تو کانپ اٹھے، صحیفہ ہاتھ سے گر گیا، پھر خود کو سنبھالا، اور اس میں پڑھا: طه (1) مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى (2) إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى (3) تَنْزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى (4) الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى (5) لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى (6) وَإِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ
[1] سیرۃ ابن ہشام: ۱؍ ۳۴۳ سنداً منقطع ہے۔ طبقات ابن سعد: ۳/ ۲۶۷، بروایت قاسم بن عثمان البصری عن انس۔ اور قاسم ضعیف ہیں ، فضائل الصحابۃ؍ احمد بن حنبل کی تحقیق میں د؍ وصی اللہ نے ان روایات کی تحقیق کی ہے۔