کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 516
(۲) دور فاروقی میں گورنران ریاست کی تقرری سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ والیان ریاست کے انتخاب اور ان کی تقرری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کی پیروی کرتے تھے۔ چنانچہ اس منصب پر انہی لوگوں کو فائز کرتے تھے جو باصلاحیت، امانت دار اور فرائض منصبی کی ادائیگی میں سب سے بہتر ہوں۔ تقرری کا مسئلہ ہو یا معزولی کا، دونوں مواقع پر بھرپور چھان بین کرتے تھے، ایسے آدمی کو عہدہ ہرگز نہیں دیتے تھے جو اس کا خواہاں ہو۔ گورنرں کی تقرری کو ایک امانت سمجھتے تھے جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر عہدہ کے لیے وہی لوگ سب سے زیادہ مستحق ہیں جو اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں ومناسب ہوں۔ اگر بلا کسی معقول عذر کے اصلح وباصلاحیت فرد کو چھوڑ کر اس سے ادنیٰ درجہ کے آدمی کو مقرر کیا گیا تو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے ساتھ خیانت ہے۔[1] اس سلسلے میں آپ کے چند ایک اقوال زریں ہیں، مثلاً: ’’میں اپنی امانت اور عہدہ کا ذمہ دار ہوں، میرے دل میں جو خیالات آتے ہیں اس کو ان شاء اللہ میں جانتا ہوں، اسے دوسروں کے حوالہ نہیں کروں گا اور جو (باتیں) مجھ سے دور ہیں انہیں میں امانت داروں اور امت مسلمہ کے خیر خواہوں کے ذریعہ ہی سے جان سکتا ہوں، ان (امانت داروں اور خیر خواہوں) کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنی امانت نہیں دوں گا۔‘‘[2] اور فرمایا: ’’جس نے کسی آدمی کو کسی جماعت کا ذمہ دار بنایا حالانکہ کہ اس جماعت میں اس سے بہتر اور اللہ ترس آدمی موجود ہے تو اس نے اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی۔‘‘[3] نیز فرمایا: ’’جو شخص مسلمانوں کا حکم بنایا گیا اور اس نے کسی قرابت داری یا ذاتی محبت کی بنا پر کسی کو عہدہ دیا اس نے اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی۔‘‘[4] گورنران ریاست کی تقرری کا فاروقی معیار اور اس کی لازمی شرائط ۱: قوت وطاقت اور امانت داری: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اس اصول کو عملاً نافذ کیا اور قوی فرد کے مقابلے میں اقویٰ (قوی ترین) فرد کو ترجیح دی۔ (چنانچہ آپ نے جب شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے ان کی جگہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کیا تو شرحبیل رضی اللہ عنہ نے آپ سے دریافت کیا کہ: اے امیرالمومنین! کیا آپ نے ناراض ہو کر مجھے معزول کیا ہے؟ تو آپ نے
[1] الولایۃ علی البلدان: ۱/۱۳۳۔ [2] الولایۃ علی البلدان: ۱/۱۳۳، ۱۳۴، ۱۳۵۔