کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 507
صوبائی ذمہ داریاں دے کر شام کے مختلف علاقوں کا الگ الگ انتظام وانصرام سونپ دیا، یزید رضی اللہ عنہ کو فوجی قیادت میں مہارت حاصل تھی، کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شام کے محاذ پر جن افواج کو روانہ کیا تھا ان میں سے ایک کی قیادت آپ کر چکے تھے۔ اسی طرح ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے جہاد کے لیے نکلتے وقت کئی مرتبہ ان کو اپنا نائب بنایا تھا۔[1] مورخین نے لکھا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جب یزید رضی اللہ عنہ کو شام کی افواج کا اعلیٰ کمانڈر بنایا تو دوسرے امراء و جرنیلوں کو ان کے ماتحت کرکے وہاں کے مختلف علاقوں میں بھیج دیا، البتہ یزید رضی اللہ عنہ کو فلسطین واردن کے لیے خاص کر دیا۔[2] چونکہ شام پر یزید رضی اللہ عنہ کی مدت ولایت بہت مختصر رہی اس لیے تاریخی مصادر میں ان کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ ۱۸ہجری میں یزید رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے یزید رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو ولایت کے لیے اپنا نائب نامزد کر کے اس کی اطلاع عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دے دی تھی۔ یزید رضی اللہ عنہ کی مدت ولایت تقریباً ایک سال تھی۔[3] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی ولایت کی منظوری دیتے ہوئے شام کے چند سرکاری امور و انتظام میں کچھ تبدیلیاں کیں، مثلاً معاویہ رضی اللہ عنہ کو دمشق کی اسلامی فوج اور وہاں کے اخراج سے متعلقہ امور کا مکمل اختیار دیا اور نماز کی امامت نیز منصب قضاء کی ذمہ داریوں سے ان کو سبکدوش کر کے اس کے لیے اپنے یہاں سے دو ممتاز علماء وصحابہ کرام کو وہاں بھیجا۔[4] گویا ایک اہم تبدیلی یہ واقع ہوئی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے اختیارات محدود کر دیے گئے، بالخصوص اس سے قبل نماز کی امامت وہی شخص کرتا تھا جو صوبہ کی ولایت وامارت پر مامور ہوتا تھا، لیکن اب وہ ذمہ داری دوسرے کے ذمہ ہوگئی، شاید وہاں کچھ ایسے اسباب موجود تھے جن کی بنا پر عمر رضی اللہ عنہ کو یہ جدید طریقہ اختیار کرنا پڑا اور پھر یہی طریقہ دیگر ریاستوں میں بھی نافذ ہوا، معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی اسلوب پر عمل کیا (یعنی اپنے ماتحت نائب گورنران کو امامت نماز اور قضاء کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا) معاویہ رضی اللہ عنہ بردباری اور سخاوت میں کافی مشہور ہوئے جس کی وجہ سے عراق وغیرہ کے بہت سے باشندے یہاں آکر آپ کی ریاست میں آباد ہوگئے۔[5] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے بعض امراء کو شام کے مختلف علاقوں کے لیے نامزد کر کے بھیجا اور انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کی زیر نگرانی مامور کیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ منصب ولایت پرفائز ہوتے ہوئے کبھی کبھار شام کے شمالی علاقوں میں رومیوں کے خلاف محاذ جنگ قائم کرتے تھے، انہی جنگوں کو صوائف یعنی موسم گرما کی جنگی کارروائی کہا جاتا تھا۔[6] سیّدنامعاویہ رضی اللہ عنہ منصب ولایت سنبھالنے کے بعد سے عمر رضی اللہ عنہ کی وفات تک ریاست شام کے فرائض برابر انجام دیتے رہے۔ جبکہ وہاں کے دوسرے علاقوں سے اپنا رابطہ رکھتے تھے، بس ان امراء واحکام اور
[1] الولایۃ علی البلدان: ۱/ ۸۳۔ [2] تہذیب تاریخ دمشق: ۱/۱۵۲۔ [3] عبداللہ بن قرط الثمالی الازدی صحابی ہیں ، آپ سے احادیث مروی ہیں ، شام کی فتوحات میں آپ نے شرکت کی ہے۔ [4] تاریخ خلیفہ بن خیاط: ص: ۱۵۵۔ [5] فتوح الشام: ص ۲۴۸۔ [6] الفتوح: ابن اعثم الکوفی، ص: ۲۸۹، الولایۃ علی البلدان: ۱/۹۰۔