کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 505
اور عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو وہاں کا گورنر مقرر کیا اور باوجودیکہ چند ایک معاملات میں کبھی کبھار انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کی مرضی کے خلاف کام کیا جس کے نتیجہ میں عمر رضی اللہ عنہ کو ان پر تادیبی کارروائی کرنا پڑی تاہم وہ عمر رضی اللہ عنہ کی پوری مدت خلافت میں وہاں کے گورنر رہے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مصر کے گورنر جنرل تھے اور آپ کی ماتحتی میں مصر کے مختلف علاقوں پر چھوٹے چھوٹے امراء و گورنر ان مقرر تھے، جیسے کہ عبداللہ بن سعد بن ابی اسرح رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ خلیفۂ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت مصر کے علاقہ ’’الصعید‘‘ پر والی مقرر تھے۔[1] دور فاروقی میں مصر میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی مدت ولایت (گورنری) میں یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ صوبہ کے مختلف معاملات میں بکثرت دخل اندازی کرتے تھے۔[2] سیّدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنی مدت ولایت میں خراج اور جزیہ کے بارے میں قبطیوں کی مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اس کام پر مامور کیا۔[3] آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حکم کی بنا پر اپنی افواج کو زراعت وکاشت کاری کرنے اور اس سے دلچسپی لینے سے منع کر دیا تھا اور خلاف ورزی کی صورت میں مخالفین کو سزا دیتے تھے۔[4] اس ممانعت کا سب سے اہم مقصد یہی تھا کہ اسلامی فوج ہمیشہ مجاہدانہ کارروائی کے لیے چاق چوبند رہے اور کاہلی وسستی کی طرف مائل نہ ہو اور صرف زمین سے ہی مربوط ہو کر نہ رہ جائے کیونکہ اسلامی فوج کو بیت المال سے اتنی تنخواہ دی جاتی تھی جو انہیں کسب معاش سے بے نیاز رکھے۔ خلیفۂ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مسلسل نگرانی کی وجہ سے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے چند ہی سالوں میں صوبہ اور اس کے معاملات کو کافی منظم ومستحکم کر دیا اور مختصر سی مدت میں اسلامی سلطنت کی ریاستوں میں ایک عظیم ریاست کا درجہ پالیا اس میں رونما ہونے والے حالات وواقعات صوبہ میں امن واستقرار پر دلالت کرتے ہیں باوجودیکہ چاروں طرف سے روم کی انتقامی کارروائی کے خطرات بھی منڈلا رہے تھے جو یہ چاہتے تھے کہ سمندری راستوں سے اسکندریہ پر ہلہ بول کر مصر پر دوبارہ قابض ہو جائیں۔ عہد فاروقی میں اسلام کی نشرواشاعت کے لیے یہ صوبہ بہت زرخیز ثابت ہوا کیونکہ یہاں لوگوں کو عدل وانصاف اور رحمت وشفقت کا ایسا پیغام ملا جسے انہوں نے کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔ وہ اسلام کی حقانیت اور اس کی واضح وآسان تعلیمات سے مطمئن ہوئے اور پھر اسلام قبول کر کے اس کے سپاہی بنے۔ مصر میں اداری کام اور سرکاری امور بڑی سہولت اور آسانی کے ساتھ انجام پاتے تھے۔ سیّدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ وہاں کے گورنر جنرل تھے اور وہی خراج کے اعلیٰ ذمہ دار بھی۔ ہر چند کہ وہ گورنر جنرل اور صوبائی امور کے نگران اعلیٰ تھے، پھر بھی مصر کے دیگر علاقوں میں اپنی ماتحتی میں چند لوگوں کو گورنری اور امارت کا اختیار دے رکھا تھا اور ان سے ریاستی مسائل میں
[1] الولایۃ علی البلدان: ۱/ ۷۴۔ [2] البدایۃ والنہایہ: ۷/ ۱۰۱۔ [3] الولایۃ علی البلدان: ۱/ ۷۵۔ [4] الولایۃ علی البلدان: ۱/ ۷۵۔ [5] تاریخ الطبری: ۵/ ۲۳۹۔ [6] الولایۃ علی البلدان: ۱/ ۷۶۔