کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 503
علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ بحرین کے گورنر تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ابتدائی ایام خلافت میں ان کو ان کے منصب ولایت پر راجح قول کے مطابق ۱۴ہجری تک باقی رکھا۔[1] علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے بلاد فارس کے مختلف علاقوں میں ہونے والی اولین مجاہدانہ کارروائیوں میں شرکت کی اور اس میں آپ کا سب سے بنیادی کردار رہا۔ بحرین پر آپ کی گورنری کے آخری ایام میں عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں سے ان کو معزول کر کے بصرہ کا گورنر بنا دیا، لیکن علاء کو یہ قدرے ناگوار گزرا اور بصرہ پہنچنے سے قبل ہی فوت ہوگئے، بحرین ہی میں آپ کی تدفین ہوئی۔ بحرین سے علاء رضی اللہ عنہ کی معزولی کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اطلاع واجازت کے بغیر سمندری راستے سے فارس پر حملہ آور ہوئے تھے۔ حالانکہ عمر رضی اللہ عنہ اسلامی فوج کا سمندری راستوں سے گزرنا ناپسند کرتے تھے۔ علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بحرین کے گورنر مقرر ہوئے اور بحرین سے متصل بلاد فارس کے علاقوں پر حملہ کرتے رہے اور رفتہ رفتہ آپ کی فتوحات سندھ کے علاقوں تک وسیع ہوگئیں۔ نیز عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ کو حکم صادر فرمایا تھا کہ اپنی فتوحات اور جنگی کارروائیوں میں بصرہ کے گورنر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے تعاون لیتے رہیں۔ چنانچہ فارس کے جنگی محاذ میں بصرہ کے راستہ سے دونوں ریاستوں کی اسلامی افواج باہم متعاون ہو کر پیش قدمی کرتی تھیں۔[2] عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نہایت پرہیزگار، نیک طبیعت کے مالک اور محرمات سے دور رہنے والے تھے۔[3] عثمان بن ابی العاص، عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے دو مختلف اوقات میں دو مرتبہ بحرین کے گورنر مقرر ہوئے۔ پہلی مرتبہ ۱۵ہجری میں ان کو گورنر بنایا گیا لیکن بصرہ کے بعض علاقوں میں بعض اسلامی افواج کی قیادت وکمانڈری اور فتوحات میں پیش قدمی کے لیے ان کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ کو بحرین سے بلا لیا اور عیاش بن ابی ثور رضی اللہ عنہ کو وہاں کا گورنر بنا کر بھیجا۔[4] عیاش کی مدت ولایت بہت مختصر تھی اور ان کے بعد قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کو وہاں کا گورنر بنایا۔ قدامہ رضی اللہ عنہ ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہ چکے تھے اور پہلے بحرین کے قاضی بھی تھے نیز مزید کچھ ریاستی ذمہ داریاں ان کے سر تھیں، وہ جب تک بحرین کے گورنر رہے لوگوں نے ان کی تعریف کی، البتہ گورنری کے آخری ایام میں ان پر یہ تہمت لگ گئی کہ وہ شراب نوشی کرتے ہیں، تحقیق کے بعد یہ اتہام پایہ ثبوت کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد ان پر عمر رضی اللہ عنہ نے شراب نوشی کی حد جاری کی۔ قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بچوں عبداللہ اور ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہما کے ماموں تھے۔[5]
[1] غایۃ الأمانی: ۱/۸۳۔ [2] الأموال: قاسم بن سلام، ص:۴۳۶۔ [3] تاریخ الیعقوبی: ۹/۱۵۷۔ [4] تاریخ الطبری:۵/۲۳۹۔ [5] الولایۃ علی البلدان :۱/۷۱۔ [6] الیمن فی ظل الاسلام، د؍ عصام الدین، ص:۴۹۔ [7] فتوح مصر و أخبارھا، ابن عبد الحکیم:۱۱۹۔۱۲۳۔ [8] الولیات علی البلدان: ۱/ ۷۱۔