کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 502
یمنی لوگ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تک چلے گئے اور ان مسائل و معاملات کی تحقیق اور شکایات کے تصفیہ کے لیے کئی مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ کے بلانے پر یعلی رضی اللہ عنہ کو مدینہ نبویہ آنا پڑا[1] یعلی رضی اللہ عنہ کی غیر موجودگی میں کبھی کبھار عمر رضی اللہ عنہ دوسرے کو ان کا نائب مقرر کردیا کرتے تھے، زکوٰۃ سے متعلق کئی مسائل میں یعلی اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے درمیان خط و کتابت بھی ہوئی ہے۔[2] اسی طرح یعلی رضی اللہ عنہ کا خود کہنا ہے کہ میں ان گورنروں میں سے ایک تھا جن کی ذاتی جائداد آمدنی سے زیادہ ہونے کی بنا پر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے آخری ایام میں تقسیم کرایا تھا۔[3] عہد فاروقی کے یمنی گورنران میں عبد اللہ بن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ کا نام بھی آتا ہے، لیکن شاید وہ یمن کے ایک مخصوص علاقہ ’’جند‘‘ پر حاکم تھے، جیسا کہ امام طبری نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے آخری دور خلافت کے گورنروں کا ذکر کرتے ہوئے جہاں یعلی رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر لکھا ہے وہیں اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے عبد اللہ بن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ یمن کے ایک علاقہ ’’جند‘‘ پر حاکم تھے۔[4] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں اسلامی فتوحات میں باشندگان یمن کا بنیادی اور اہم کردار تھا، وہ لوگ شام، عراق اور مصر کی فتوحات میں برابر کے شریک رہے۔[5] اور جب عراق کی آباد کاری کے وقت اس کے جدید اسلامی شہروں مثلاً کوفہ و بصرہ وغیرہ کا خاکہ تیار کیا گیا تو وہاں بہت سارے یمنی قبائل جاکر آباد ہوئے۔ ان میں سب سے بڑا قبیلہ کندہ تھا، جو کوفہ میں آباد ہوا تھا، [6] اسی طرح بہت سے یمنی قبائل نے شام میں سکونت اختیار کیا اور فتوحات شام میں ان کا اہم کردار رہا اور جب مصر کے دارالحکومت ’’فسطاط‘‘ کی آباد کاری ہوئی تو وہاں بھی کئی یمنی قبائل منتقل ہوگئے۔[7] بہرحال دو رفاروقی میں منظم شکل میں ان یمنی قبیلوں کی ہجرت کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور کن شہروں میں کون سے قبیلے جائیں اس کی منصوبہ بندی میں یمن کے بڑے بڑے شہروں کے امراء وسرکاری افسران کا کافی اہم کردار تھا۔ اس طرح یمن عہد فاروقی کی اہم اسلامی ریاستوں میں سے ایک تھا اور ملکی سیاست میں دیگر ریاستوں کے بالمقابل اس ریاست کے اثرات اور سرکاری امراء کے کردار زیادہ نمایاں رہے۔[8] بحرین: جس وقت سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اس وقت سیّدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے
[1] تاریخ خلیفۃ بن خیاط، ص:۱۳۴۔ [2] تاریخ الطبری: ۵/۲۳۹۔ [3] الطائف فی العصر الجاہلی و صدر الإسلام، نادیۃ حسین صقر، ص:۱۹۔ [4] الطائف فی العصر الجاہلی و صدر الإسلام، نادیۃ حسین صقر، ص:۱۹۔ [5] الولایۃ علی البلدان:۱/۶۹۔ [6] غایۃ الأمانی فی اخبار القطر الیمانی، یحییٰ الحسین:۱/۸۳۔ [7] تاریخ الطبری:۲/۱۵۷۔