کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 500
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کے ذریعہ بہت سی قوموں کو بلند کرتا ہے اور دوسری بہت سی قوموں کو پست کرتا ہے۔‘‘ عہد فاروقی میں ریاست مکہ مکرمہ کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ حرم مکی کی توسیع کی گئی۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے کعبہ کے اردگرد کے مکانات کو خرید کر منہدم کرا دیا اور اسے حرم مکی میں شامل کر کے چاروں طرف سے معمولی اونچائی کی چار دیواری قائم کر دی۔ حج کے موسم میں مکہ مکرمہ ہی مختلف علاقوں اور صوبوں سے آنے والے والیان وامراء کی امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے جائے اجتماع ہوتا تھا اور اس طرح عہد فاروقی میں اسلامی سلطنت کے لیے ایک عظیم صوبے کی حیثیت سے مکہ مکرمہ کا بنیادی کردار ہوا کرتا تھا۔ مدینہ نبویہ: جو خلیفہ ہوتا وہی مدینہ نبویہ کا گورنر بھی ہوا کرتا تھا، یہ اس لیے تھا کہ خلیفہ بھی یہیں پر مقیم ہوتا تھا اور خود یہاں کا نظم ونسق دیکھتا اور معاملات کے لیے تدبیریں پیش کرتا تھا۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں جب مدینہ میں موجود نہ ہوتے تھے تو کسی کو اپنا نائب بنا کر جاتے اور وہ مدینہ کے مختلف امور ومعاملات کو دیکھتا، حج اور دیگر بعض سفروں میں آپ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مدینہ پر اپنا نائب حاکم بنایا۔ [1] اسی طرح اور کئی مرتبہ اپنی عدم موجودگی میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بھی اپنا نائب بنا کر گئے۔[2] اس طرح عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنی عدم موجودگی میں دوسروں کو اپنا نائب مقرر کرکے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت صدیقی پر عمل پیرا رہے۔ اُس دور میں چند اہم اسباب کی بنا پر دیگر صوبوں کے درمیان صوبہ مدینہ نبویہ کا منفرد سیاسی مقام تھا۔ ان اسباب میں سب سے اہم یہ تھا کہ وہ خلیفۂ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رہائش گاہ تھا، دیگر اسلامی علاقوں کے لیے وہیں سے احکامات صادر ہوتے تھے اور وہاں سے مجاہدین اسلام کے قافلے روانہ کیے جاتے تھے۔ مزید برآں وہ ایسے بہت سارے بزرگ و ممتاز صحابہ کرام کی رہائش گاہ تھا جنہیں عمر رضی اللہ عنہ دوسرے صوبوں میں سکونت پذیر ہونے سے منع کرتے تھے[3] اور یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے براہ راست قرآن و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم حاصل کرنے اور اسے سیکھنے کی غرض سے طالبان علوم نبوت کا قافلہ مدینہ نبویہ کی طرف کشاں کشاں چلا آتا تھا۔[4] طائف: طائف کا شمار دور فاروقی کے اہم اسلامی شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ شہر طاقتور مجاہدین اسلام کی فوجی تحریک کو
[1] صحیح البخاری الخصومات (۳/۲۵) باب الربط والحبس، مسند أِحمد، حدیث نمبر (۲۳۲) الموسوعۃ الحدیثیۃ۔ اس کی سند صحیح ہے۔ صحیح بخاری کی روایت میں یہ واقعہ اس طرح ہے کہ… [2] الولایۃ علی البلدان/ عبدالعزیز العمری (۱/ ۶۷) اس فصل کا یہ اہم مرجع ہے میں نے اس فصل میں اسی کتاب کی تلخیص پیش کی ہے۔