کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 492
پکڑا گیا تو میں ضرور بالضرور اسے سنگسار کروں گا۔ [1] پس اس اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں متعہ جائز تھا اور جس نے اسے حرام قرار دیا وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ مزید برآں صحیح مسلم اور مصنف عبدالرزاق میں اور کئی آثار ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد صدیقی میں متعہ حلال تھا اور جس نے اسے سب سے پہلے حرام قرار دیا وہ امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ نکاح متعہ کو حرام قرار دینے والے درحقیقت اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور جو صحابہ نکاح متعہ کے جواز کے قائل تھے انہیں اس کی قطعی ممانعت کا نبوی فرمان نہیں پہنچا تھا۔ اسی طرح متاخرین میں سے ابوہلال عسکری [2] اور رفیق العظم [3] جیسے لوگوں کا بلا کسی شرعی دلیل کے یہ کہنا کہ ’’نکاحِ متعہ‘‘ کو حرام قرار دینے والے پہلے فرد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں، سراسر غلطی اور ادلۂ شرعیہ سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔ ’’نکاح متعہ‘‘ کی حرمت پر سختی سے کاربند ہونے کے لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے جو احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم بطور دلیل تھیں ان میں سے چند ایک کو یہاں ذکر کیا جا رہا ہے، ان احادیث سے یہ بات بھی ثابت ہورہی ہے کہ اسے حرام کرنے والے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں نہ کہ عمر رضی اللہ عنہ ۔ ۱: امام مسلم نے اپنی سند سے مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: عام اوطاس [4] میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین دن ’’نکاحِ متعہ‘‘ کی اجازت دی، پھر اس سے منع کردیا۔ [5] ۲: امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی سند سے سبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نکاحِ متعہ کی اجازت دی، تو میں اور میرا ایک ساتھی بنو عامر کی ایک عورت کے پاس گئے، وہ گویا لمبی گردن والی جوان اونٹنی تھی (یعنی حسن اور جسمانی ساخت میں مکمل تھی) ہم نے (نکاح متعہ کے لیے) اس سے پیش کش کی۔ اس نے کہا: تم کیا دو گے؟ میں نے کہا: اپنی چادر اور میرے ساتھی نے کہا: اپنی چادر، میرے ساتھی کی چادر مجھ سے بہتر تھی اور میں اس سے زیادہ نوجوان تھا۔ [6]جب وہ میرے ساتھی کی چادر دیکھتی تو وہ اسے لبھاتا اور جب میری طرف دیکھتی تو میں اسے لبھاتا۔ پھر اس نے کہا: تم اور تمہاری چادر میرے لیے کافی ہے۔ چنانچہ میں تین دن اس کے ساتھ رہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا:
[1] الفقہاء فی عہد عمر بن الخطاب: ۲/ ۷۳۶، ۷۳۹۔ [2] زاد المعاد: ۵/ ۲۷۰۔ طلاق سے متعلق سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کارروائی سے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ کا موقف ہی راجح ہے کہ یہ ایک تعزیری اقدام تھا، تاکہ لوگ ایک ساتھ ایک سے زیادہ طلاق دینے سے باز آجائیں اور حاکم کو اس طرح تعزیری قانون نافذ کرنے کا اختیار ہے شریعت نے حاکم کو اس کا حق دیا ہے۔ (مترجم)