کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 486
کے لائق ہوجائے گی۔ [1] شخصی ملکیت پر پابندیاں لگانا تاکہ اس کے استعمال میں بے راہ روی نہ ہو: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جن فاروقی اجتہادات کو سبقت حاصل ہے اور جن میں ذاتی مفادات پر عوامی مفادات کی ترجیحات نمایاں ہیں، نیز جن میں ذاتی ملکیت پر چند پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تاکہ اس کے استعمال میں بے راہ روی نہ ہو، انہی میں سے ایک مثال وہ واقعہ بھی ہے جسے امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الموطا‘‘ میں نقل کیا ہے: ’’عمر بن یحییٰ المازنی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ضحاک بن خلیفہ نے اپنے لیے پانی لے جانے کی ایک کشادہ نالی کھودی اور چاہتے تھے کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی زمین سے ہو کر یہ نالی آگے نکل جائے، لیکن محمد بن مسلمہ نے نالی کے لیے اپنی زمین دینے سے انکار کردیا۔ تو ضحاک نے ان سے کہا: آپ مجھے کیوں روکتے ہیں، اس میں آپ کے لیے بھی فائدہ ہے۔ پانی لے جاتے وقت اور بند کرتے وقت، یعنی شروع اور آخر میں آپ اس سے اپنی کھیتی سیراب کرسکتے ہیں اور اس سے آپ کو کوئی نقصان نہ ہوگا، لیکن محمد بن مسلمہ نے اجازت نہیں دی۔ چنانچہ ضحاک نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس یہ معاملہ پیش کیا، آپ نے محمد بن مسلمہ کو طلب کیا اور حکم دیا کہ ضحاک کو پانی لے جانے دیں۔ لیکن محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، میں اجازت نہیں دوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم اپنے بھائی کے لیے ایسی چیز کیوں بند کرتے ہو جو اس کے لیے فائدہ مند ہے اور تمہارے لیے بھی مفید ہے، شروع میں اور آخر میں تم اس سے اپنی کھیتی سیراب کرلو، تمہیں اس سے کوئی نقصان ہونے والا نہیں۔ لیکن محمد بن مسلمہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم میں اجازت نہیں دوں گا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! وہ نالی ضرور لے جائیں گے چاہے تمہارے پیٹ پر سے گزر کر جائے۔ پھر آپ نے ضحاک کو نالی لے جانے کا حکم دیا اور ضحاک نے نالی بنالی۔‘‘ [2] دراصل عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث پر قیاس تھا کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: (( لَا یَمْنَعُ جَارٌ جَارَہٗ اَنْ یَّغْرِزْ خَشَبَہٗ۔)) ’’تم میں سے کوئی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے نہ روکے۔‘‘ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا بات ہے کہ میں تم کو اس سے اعراض کرنے والا دیکھ رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! (اگر اس کی اجازت نہ دو گے تو) میں تمہارے کندھوں کے درمیان اسے گاڑوں گا۔ [3]
[1] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص:۳۷۱۔