کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 485
۲۵: حمل کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مدت: عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک ایسی عورت کا قضیہ پیش کیا گیا جس کو چھ مہینے میں ولادت ہوئی تھی، عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رجم (سنگسار) کرنا چاہا، لیکن اس عورت کی بہن علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئی اور کہا: عمر رضی اللہ عنہ میری بہن کو سنگسار کرنا چاہتے ہیں، میں آپ سے اللہ کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ کیا میری بہن کے لیے رجم سے بچنے کے لیے کوئی عذر ہے؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں اس کے لیے عذر ہے۔ اس عورت نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا، جسے عمر رضی اللہ عنہ نیز آپ کے ساتھ بیٹھنے والے دیگر لوگوں نے سنا۔ وہ عورت وہاں سے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہا: بے شک علی رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ میری بہن کے لیے ایک عذر ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور پوچھا کہ اس کے لیے کیا عذر ہے؟ تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ(البقرۃ:۲۳۳) ’’مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔‘‘ اور ایک مقام پر ارشاد ہے: ﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا(الاحقاف:۱۵) ’’اس (ماں) کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس (۳۰) مہینے ہے۔‘‘ اس طرح حمل کی مدت چھ مہینے اور دودھ چھڑانے کی مدت چوبیس (۲۴) مہینے ہوتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ استنباط سن کر اس عورت کو معاف کردیا اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی ماں کے پیٹ میں حمل نو (۹) مہینے سے زیادہ بھی رہتا ہے۔ آپ کے پاس ایسی ہی عورت کا معاملہ پیش ہوا، اس کا شوہر دو سالوں سے غائب تھا، جب وہ گھر واپس آیا تو بیوی حاملہ تھی، آپ نے اسے رجم کرنے کا ارادہ کیا، تو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: اے امیر المومنین! آپ عورت پر حکم نافذ کرسکتے ہیں لیکن پیٹ میں پلنے والے بچے کا کیا قصور ہے۔ چنانچہ آپ نے اسے اس وقت جانے دیا پھر لڑکے کی ولادت ہوئی تو اس کے دونوں اگلے دانت نکلے ہوئے تھے اور شوہر نے بچے کو اپنے مشابہ پایا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورتیں معاذ جیسے لوگوں کو پیدا کرنے سے بانجھ ہوگئی ہیں، اگر معاذ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔ [1] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ حمل کی اکثر مدت چار سال قرار دیتے تھے، اس لیے کہ جس عورت کا خاوند گم ہوگیا ہو اسے آپ حکم دیتے تھے کہ چار سال تک انتظار کرو، پھر شوہر کی وفات کی عدت گزارو۔ علامہ ابن قدامہ اس سلسلہ میں عمر رضی اللہ عنہ کا مسلک لکھتے ہیں کہ مفقود (غائب ہوجانے والے) کی بیوی حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت یعنی چار سال انتظار کرے گی، پھر چار مہینے دس دن یعنی وفات کی عدت گزارے گی اور پھر دوسروں سے نکاح
[1] الطرق الحکمیۃ، ص: ۱۵، ۱۶۔ [2] محض الصواب: ۲/ ۷۰۹ شعبی تک اس کی سند صحیح ہے، البتہ شعبی اور عمر کے درمیان انقطاع ہے۔ [3] موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۴۷۔