کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 479
اور یہ ہمارا ملک یمین (غلام) ہے۔ چنانچہ قضیہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔ آپ نے فرمایا: تمہارا غلام تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔ [1] اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دونوں میں جدائی کرا دی اور عورت کو حد میں نہیں بلکہ تعزیری طور پر سو کوڑے لگوائے اور اس سے حد اس لیے ساقط کردی کہ اسے درپیش معاملہ کی حرمت کا علم نہ تھا۔ [2] ۱۲: ایک عورت اپنے شوہر پر اپنی لونڈی سے زنا کی تہمت لگاتی ہے: ایک عورت نے اپنے شوہر پر اپنی لونڈی سے زنا کرنے کی تہمت لگائی، پھر اقرار کیا کہ اس نے اپنی لونڈی کو خاوند کی ملکیت میں دے دیا تھا۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے عورت پر اسّی (۸۰) کوڑے تہمت کی حد نافذ کرنے کا حکم دیا۔ [3] ۱۳: طنز واشارہ میں تہمت لگانے پر حد تہمت کا نفاذ: آپ کے عہد خلافت میں ایک آدمی نے دوسرے پر طنز کیا اور کہا: نہ میرا باپ زانی ہے اور نہ میری ماں بدچلن۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس قضیہ کی شکایت سن کر لوگوں سے اس معاملہ میں مشورہ لیا، کسی نے کہا: اس نے اپنے ماں باپ کی تعریف کی ہے اور کچھ لوگوں نے کہا: وہ اپنے والدین کے بارے میں ایسا کہہ کر کچھ دوسری بات کہنا چاہتا ہے (یعنی میرے والدین اس طرح نہیں لیکن تمہارے والدین بدکار ہیں) ہماری رائے ہے کہ آپ اس پر تہمت کی حد نافذ کریں۔ چنانچہ آپ نے اس پر اسّی (۸۰) کوڑے تہمت کی حد نافذ کی۔ [4] گویا عمر رضی اللہ عنہ نے تہمت پر مبنی طنز واشارہ پر حد نافذ کی، اس لیے کہ قرینہ صاف ظاہر تھا، وہ آدمی اپنے فریق مخالف پر اشاروں میں تہمت لگا رہا تھا کیونکہ یہ بات اس نے کافی گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے بعد کہی تھی۔ پس عمر رضی اللہ عنہ کی اس سلسلہ میں کارروائی اس سیاست پر مبنی تھی کہ اس سے احمقوں کو تادیبی سزا بھی مل جائے اور پاک دامن لوگوں کی عزتیں محفوظ رہیں۔ آپ کی یہ حکیمانہ سیاست تھی جو کتاب وسنت کے خلاف نہ تھی بلکہ شریعت اسلامیہ کی روح واساسی مقاصد کے بالکل موافق تھی۔ [5] ۱۴۔ عزت پر ڈاکا ڈالنے والے یہودی کا خون مباح ہے: عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں دو نیک نوجوان تھے، جن میں مواخات کا رشتہ تھا۔ ان میں سے ایک غزوہ پر جانے لگا اور اپنے بھائی کو نصیحت کردی کہ ہماری آل واولاد کی دیکھ بھال کرے گا۔ چنانچہ ایک رات اس کا بھائی اس کے
[1] المحلی: ۱۲/ ۱۰۷، اثر نمبر: ۲۱۹۸۔ [2] المحلی: ۱۲/ ۱۹۲، اثر نمبر: ۲۲۱۵۔ [3] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۴۹۔ [4] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۴۹۔ [5] المغنی: ۱۲/ ۲۴۵۔ [6] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۴۹۔