کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 477
۴: پاگل زانیہ عورت: عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک پاگل عورت لائی گئی جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ آپ نے اس کے بارے میں لوگوں سے مشورہ لیا اور اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا۔ ادھر سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا تو کہا: اسے واپس لے جاؤ اور پھر آپ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ یہ ’’مرفوع القلم‘‘ میں سے ہے، اور پھر اس سلسلے کی پوری حدیث سنائی۔ [1]آخر میں عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں، یہ ضرور ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر یہ کیوں رجم کی جا رہی ہے؟ چنانچہ آپ نے اسے چھوڑ دیا [2] اور اللہ اکبر کہنے لگے۔ [3] ۵: ایک ذمی نے مسلمان عورت کے ساتھ زنا بالجبر کیا: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس طرح کا ایک واقعہ پیش آیاتو آپ نے اسے پھانسی دی، اس لیے کہ اس نے شروط ومعاہدہ کی خلاف ورزی کی تھی۔ [4] ۶: کچھ عورتیں زنا پر مجبور کی گئیں: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس ریاست کی کچھ باندیاں لائی گئیں، انہیں ریاست کے کچھ غلاموں نے زنا کرنے پر مجبور کیا تھا، تو آپ نے غلاموں کو کوڑے لگائے اور لونڈیوں کو چھوڑ دیا۔ [5] اسی طرح آپ کے پاس ایک ایسی عورت لائی گئی جس سے زنا کی حرکت سرزد ہوگئی تھی، عورت نے عرض کیا: میں سو رہی تھی اور اس وقت بیدار ہوئی جب کہ آدمی مجھ پر غالب آچکا تھا۔ چنانچہ آپ نے یہ سن کر اس سے درگزر کیا اور سزا نہیں دی۔ [6]آپ نے یہ موقف اس لیے اختیار کیا کہ یہ واقعہ شبہ پر قائم تھا اور حدود وقصاص کو شبہ کی بنیاد پر نافذ نہیں کیا جاتا۔ بہرحال جبر واکراہ خواہ زبردستی قابو میں کرلینے کی صورت میں ہو یا قتل وغیرہ کی دھمکی کے ذریعہ سے ہو دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ آپ کے عہد خلافت میں ایک عورت نے ایک چرواہے سے پانی مانگا، چرواہے نے پانی دینے سے انکار کردیا اور دینے کے لیے اس سے زنا کی شرط لگا دی۔ چنانچہ اس عورت نے (مجبوراً) اپنے آپ کو اس کے حوالہ کردیا، چنانچہ جب یہ قضیہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس معاملہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے خیال میں اس کی اضطراری حالت تھی، پھر آپ نے عورت کو مزید کچھ عطیہ دے کر چھوڑ دیا۔
[1] أولیات الفاروق، ص:۴۵۳۔ [2] المغنی: ۱۲/ ۳۸۶۔ ارواء الغلیل، حدیث نمبر: ۲۴۲۲۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ [3] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۴۸۔ [4] المنتقیٰ، شرح الموطأ، الباجی: ۶/ ۶۳۔ [5] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۴۸۔