کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 473
نہیں۔ آپ نے فرمایا: تب تم اسے نہیں پہچانتے ہو۔ [1] اور گواہی، قسم پر مقدم ہوگی، خواہ مدعی مدعا علیہ کے قسم کھانے سے پہلے اسے پیش کرے یا قسم کھانے کے بعد۔ چنانچہ اگر مدعی نے مدعا علیہ سے اس دعویٰ پر قسم کھانے کا مطالبہ کیا اور قاضی نے مدعا علیہ سے قسم لے لی، پھر مدعی اسی دعویٰ پر بینہ (گواہی) پیش کردے تو اس کی گواہی معتبر ہوگی اور قسم کا اعتبار نہیں ہوگا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اسی چیز کو اس طرح کہا تھا: ’’معتبر وسچی گواہی کی موجودگی میں جھوٹی قسم تردید کردیے جانے کی زیادہ مستحق ہے۔‘‘ [2] گواہی لانے کا مطالبہ مدعی ہی سے کیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے نام اپنے خط میں لکھا تھا: ’’مدعی کو گواہ پیش کرنا ہے اور مدعا علیہ کے لیے قسم کھانا ہے۔‘‘ [3] اگر اتفاق سے مدعی کے پاس ایک ہی گواہ ہو تو اس کی ایک گواہی معتبر ہوگی البتہ مدعی اس کے ساتھ اپنی صداقت کے لیے قسم کھائے گا۔ مالی معاملات میں عمر رضی اللہ عنہ ایک گواہ کی موجودگی میں ایک قسم کا اعتبار کرتے تھے۔ [4] ۳: قسم: قاضی مدعا علیہ سے اس وقت تک قسم نہیں طلب کرے گا جب تک کہ مدعی گواہ دینے سے اپنی عاجزی کا اعتراف نہ کرلے اور مدعا علیہ سے قسم کھانے کا مطالبہ نہ کرلے۔ اگر مدعی، مدعا علیہ سے قسم کھانے کا مطالبہ کرلیتا ہے اور مدعی علیہ قسم کھا لیتا ہے تو اس کی قسم پر فیصلہ کردیا جائے گا۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ’’وداعہ‘‘[5] سے قسم لے کر معاملہ کا تصفیہ کیا۔ مدعا علیہ فریق نے قسم کھا لی اور آپ نے انہیں خون (قتل) سے بری کردیا۔ اسی طرح کھجور کے ایک درخت کے بارے میں عمر اور اُبی بن کعب رضی اللہ عنہما اپنا جھگڑا لے کر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، مدعی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ سے قسم کھانے کو کہا گیا تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین! (چھوٹی چیز ہے) جانے دیجیے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المومنین کیوں اسے جانے دے؟ میں جب تک حق سمجھوں گا اپنی قسم کے ذریعہ سے اسے ضرور لوں گا ورنہ چھوڑ دوں گا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، کھجور کا درخت بلا شبہ میرا ہی ہے، اس میں اُبی کا کوئی حق نہیں۔ پھر جب وہ دونوں وہاں سے نکلے تو آپ نے وہ درخت ابی رضی اللہ عنہ کو مفت میں دے دیا۔ آپ سے پوچھا گیا: اے امیر المومنین! قسم
[1] إعلام الموقعین: ۱/ ۷۰۔ [2] تاریخ القضاۃ، ص:۱۲۵۔ [3] تاریخ القضاۃ، ص: ۱۲۵۔