کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 469
عدالتی احکامات کے مصادر : خلفائے راشدین کے عہد میں قاضیوں نے بھی اپنے فیصلہ کے لیے انہی مصادر واصولوں کو بنیاد بنایا، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے قاضیوں نے بنیاد بنایا تھا۔ وہ مصادر تھے: قرآن، سنت، اور اجتہاد۔ البتہ خلفائے راشدین کے عہد میں مزید دو چیزوں کا ظہور ہوا: الف: اجتہاد کے مفہوم اور اس پر عمل کرنے میں وسعت پیدا ہوئی اور اس کے نتیجہ میں مقدمات، وسائل اور مقاصد میں ترقی ہوئی۔ چنانچہ مشاورت، اجماع، رائے اور قیاس کا ظہور ہوا جو عہد نبوی میں اس شکل میں موجود نہ تھے۔ ب: صحابہ کے وہ عدالتی فیصلے جو خلفاء کے دور میں صادر ہوئے، اسی طرح خلفائے راشدین کے عہد میں قرآن، سنت، اجتہاد، اجماع، قیاس اور سابقہ عدالتی فیصلے عدالتی کارروائی کے لیے بنیادی مصادر قرار پائے، نیز دینی مسائل، معاملات اور احکامات میں مذکورہ مصادر کے ساتھ ساتھ مشاورت کو ایک مصدر کی حیثیت حاصل رہی۔ بہرحال بے شمار نصوص اور متعدد روایات ہیں جن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ مذکورہ مصادر قضاء کے باب میں معتبر ہوتے تھے۔ ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتا ہوں: [1] ۱: امام شعبی نے قاضی شریح سے روایت کیا ہے کہ مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’کتابِ الٰہی کی روشنی میں جو تمہیں حق معلوم ہو وہی فیصلہ کرو، اگر مکمل کتابِ الٰہی کو نہ جان سکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فیصلہ تمہارے سامنے ہو اس کی روشنی میں فیصلہ کرو، اور اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فیصلوں کا احاطہ نہ کرسکو تو تمہیں ائمہ ہدیٰ (ممتا زعلماء صحابہ) کے قول وعمل کی روشنی میں جو حق معلوم ہو اس سے فیصلہ کرو اور اگر اس کا بھی استیعاب نہیں کرسکتے تو اجتہاد کرکے اپنی صوابدید سے فیصلہ کرو اور علماء وپرہیزگاروں سے مشورہ لے لو۔‘‘ [2] ۲: ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر کہا: ’’اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے درست وبرحق ہوا کرتی تھی، آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا تھا، ہماری رائیں تو گمان وتکلف پر مبنی ہیں۔‘‘ [3] نیز آپ سے مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے:
[1] موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۷۲۹۔ المحلی: ۱۱/ ۱۳۲۔ [2] إعلام الموقعین: ۱/ ۸۵۔ مجلۃ البحوث العلمیۃ: ۷/ ۲۸۷۔ [3] شہید المحراب، ص: ۲۱۱۔ [4] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۴۷۔ شہید المحراب، ص:۲۱۱۔