کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 467
کے عہد میں نجران کے نصاریٰ کی آبادی بڑھ گئی تو آپ کو ان لوگوں کے بارے میں خطرہ محسوس ہوا اور ان میں باہم اختلاف بھی پیدا ہوگیا۔ چنانچہ یہ لوگ خود عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور معاہدہ میں تبدیلی کا مطالبہ کیا، آپ نے بات مان لی اور تبدیلی کردی، لیکن پھر یہ لوگ شرمندہ ہوئے اور انہوں نے کچھ دوسرا سوچا، پھر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ پہلا حکم ہی بحال کردیں، آپ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ پھر جب علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں حکومت آئی تو انہوں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ نے ماضی میں سفارش کی تھی اور تب آپ ہی نے اس معاہدہ کو تحریر کیا تھا، لہٰذا اسی پرانے معاہدے کو بحال کردیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارا برا ہو، عمر رضی اللہ عنہ بالکل صحیح فیصلے پر تھے۔ [1] اس واقعہ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ماضی کے فیصلہ کو توڑنے سے انکار کردیا اور ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو توڑنے سے انکار کردیا۔ [2] صرف یہی نہیں بہت سارے معاملات میں عمر رضی اللہ عنہ کے اجتہاد میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں، مثلاً مسئلہ میراث میں بھائیوں کی موجودگی میں دادا کو حصہ دیتے ہیں اور حقیقی بھائیوں کو وراثت میں اخیافی بھائیوں کے ساتھ ایک تہائی ۳/۱ میں شریک کرتے ہیں، لیکن جب آپ کے اجتہاد میں تبدیلی واقع ہوتی ہے تو اس سے پہلے والے حکم کو باطل نہیں کرتے، بلکہ آئندہ پیش آنے والے واقعات میں دوسرے اجتہاد کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ گویا حق واضح ہوجانے کے بعد آپ اسی پر عمل کرتے ہیں اور اپنے پہلے فیصلہ کو باطل قرار نہیں دیتے۔ چناںچہ آپ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا: ’’اگر آج تم کوئی فیصلہ کرو اور بعد میں (غور و خوض کرکے) اس سے بہتر فیصلہ تمہاری سمجھ میں آجائے تو یہ پہلا فیصلہ حق کو قبول کرنے سے مانع نہ ہو، کیونکہ حق ازلی ہے، اسے کوئی چیز باطل نہیں کرسکتی۔ حق کی طرف رجوع کرنا غلطی پر اڑے رہنے سے بہتر ہے۔‘‘ [3] اسی نقطۂ نظر سے عمر رضی اللہ عنہ نے دادا کی وراثت کے بارے میں مختلف مرتبہ مختلف فیصلے دیے۔ اور ایک عورت جس کی وفات ہوگئی اس نے اپنے پیچھے ترکہ ، خاوند ، دو حقیقی بھائی اور اخیافی بھائی چھوڑے، تو آپ نے ثلث مال میں سب بھائیوں کو یکساں شریک کرنے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ سن کر ایک آدمی نے کہا کہ فلاں فلاں سالوں میں تو آپ نے ایسا فیصلہ نہیں دیا تھا، تو آپ نے فرمایا: وہ فیصلہ اسی وقت کا تھا، آج کا فیصلہ آج کے لیے ہے۔ [4]
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر:۲۶۴۱۔ سنن البیہقی: ۱۰/ ۱۲۵، ۱۵۰۔ [2] تاریخ المدینۃ: ۲/ ۷۶۹۔ موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب: ۷۲۷۔ [3] إعلام الموقعین: ۱/ ۱۰۸۔