کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 463
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب اس بات کی خبر پہنچی تو فرمایا: ’’ابوموسیٰ نے بالکل سچ کہا۔‘‘ [1] ۳: اسلامی شریعت کا فیصلہ: قاضی کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی شریعت کی روشنی میں فیصلہ دے، فریقین خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ چنانچہ زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہا: میرا بیٹا مر گیا ہے اور میرے ہم مذہب یہودی لوگ کہتے ہیں کہ میں اس کی میراث کی حق دار نہیں ہوں۔ آپ نے ان کو بلوایا اور کہا: تم لوگ اس کو اس کا حق کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے کہا: ہم اپنی کتاب میں اس کا حق نہیں پاتے۔ آپ نے دریافت کیا: کیا تورات میں؟ انہوں نے کہا: نہیں بلکہ ’’مشناۃ‘‘ میں۔ آپ نے پوچھا: ’’مشناۃ‘‘ کون سی کتاب ہے؟ انہوں نے بتایا: ہمارے علماء اور دانشوروں کی ایک جماعت نے اسے تصنیف کیا ہے۔ آپ نے ان کو برا بھلا کہا اور فرمایا: جاؤ اور اسے اس کا حق دو۔ [2] ۴: پیچیدہ ومشکل معاملات میں مشورہ طلبی: آپ نے اپنے ایک قاضی کو لکھا : ’’اپنے دینی معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لے لینا جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔‘‘ [3] اور قاضی شریح کے نام لکھا: ’’اگر مناسب سمجھو تو مجھ سے مشورہ لے لیا کرو، میرے خیال میں مجھ سے تمہارا مشورہ لے لینا تمہارے لیے مفید ثابت ہوگا۔‘‘ [4] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ بذاتِ خود اصحاب بصیرت سے کافی مشورہ لیتے تھے، یہاں تک کہ شعبی کا بیان ہے ’’جو شخص قضاء سے متعلق مستند دستاویز کا خواہاں ہو اسے عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کو دیکھنا چاہیے، اس لیے کہ وہ (ہر فیصلہ) میں مشورہ لیتے تھے۔‘‘ [5] ۵: فریقین کے ساتھ یکساں برتاؤ: چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا: ’’مخاطب ہونے، قریب بٹھانے اور انصاف کرنے میں لوگوں (مدعی ومدعا علیہ) کے ساتھ یکساں برتاؤ کرو تاکہ با اثر آدمی یہ توقع نہ کرے کہ تم اس کے ساتھ رعایت کرو گے اور کمزور تمہارے
[1] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۲۴۔ [2] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۲۴۔ [3] اعلام الموقعین، ابن القیم: ۱/ ۸۵۔