کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 462
ان کی جگہ کعب بن سوار کو مقرر کیا۔ [1] صاحب ثروت اور اعلیٰ حسب و نسب والا ہونا: آپ نے اپنے بعض گورنروں کو لکھا کہ تم ایسے قاضی کو مقرر کرنا جو صاحب ثروت اور اعلیٰ حسب ونسب کا ہو کیونکہ صاحب ثروت آدمی لوگوں کے اموال سے بے رغبت ہوگا اور اعلیٰ حسب ونسب کا آدمی لوگوں کی ملامت سے بے خطر ہوتا ہے۔ [2] قاضی کے فرائض: عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطوط میں قاضی کے لیے چند منصبی فرائض کو واضح کیا ہے کہ عدالتی کارروائی کے وقت ان کی رعایت لازمی ہے۔ ۱: اخلاص وللہیت: چنانچہ آپ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا: ’’بے شک برحق فیصلہ اللہ کے نزدیک باعث اجر ہے، اور نیک نامی کا ذریعہ ہے۔ جس (حاکم) کی نیت خالص حق کی ہو … گو فیصلہ اس کے خلاف ہو … اللہ تعالیٰ رعایا کے ساتھ اس کے معاملات خود سلجھا دیتا ہے اور جو حاکم رعیت کے ساتھ ریا کاری سے پیش آتا ہے اللہ تعالیٰ اسے رسوا کردیتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ بندے کے انہی اعمال کو پسند کرتا ہے جو خلوص وللہیت پر مبنی ہوں، جب وہ خلوص پر آخرت میں اجر دیتا ہے تو یہاں دنیا میں کیوں نہ دے گا، رزق رحمت کے خزانے یہاں بھی اللہ تعالیٰ مخلص لوگوں پر کھول دیتا ہے۔‘‘ [3] ۲: معاملہ کی مکمل تحقیق: فیصلہ صادر کرنے سے پہلے در پیش قضیہ (معاملہ) کی ہر اعتبار سے مکمل تحقیق ضروری ہے اور کسی برحق نتیجہ پر پہنچنے سے قبل فیصلہ دینا جائز نہیں ہے۔ آپ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے نام لکھا تھا: ’’جب معاملہ (قضیہ) تمہارے پاس آئے تو اسے خوب اچھی طرح سمجھ لو اور اس پر غور کرلو۔‘‘ اور خود ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’قاضی کے لیے فیصلہ دینا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ حق بات اس کے سامنے رات اور دن کی طرح واضح نہ ہوجائے۔‘‘
[1] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۲۳۔ [2] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۲۴۔ [3] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۲۴۔