کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 460
کرتی تھیں۔ [1] اسی طرح چونکہ نزاعی معاملات بہت کم ہوتے تھے اور ان کا یاد کرلینا آسان ہوتا تھا اس لیے انہیں رجسٹر وغیرہ میں درج نہیں کیا جاتا تھا اور قاضی کو اختیار ہوتا تھا کہ مجرم کو سزا دینے اور مظلوم کا حق دلانے کی خاطر اسے قید میں ڈال دے، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے دور میں ایسا کیا ہے۔ اس طرح حکومت بڑے بڑے شہروں میں مرکزی مقامات پر قید خانے تیار کراتی تھی اور قصاص کا نفاذ مساجد کے باہر کیا جاتا تھا۔ [2] قاضی کے اوصاف اور اس کے فرائض قاضی کے اوصاف: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے علمائے کرام نے قاضی کے لیے چند اہم اوصاف واجب قرار دیے ہیں: شرعی احکام کا علم: اس لیے کہ شرعی احکام کا جب اسے علم ہوگا تو جدید پیش آمدہ مسائل پر اسے نافذ کرے گا، ان سے لا علمی کی حالت میں انہیں نافذ کرنا محال وناممکن ہے۔ تقویٰ: چنانچہ معاذ بن جبل اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہما کے نام عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ خط لکھا تھا کہ اپنے یہاں نیک افراد پر نگاہ رکھو اور انہیں منصب قضاء کے لیے مقرر کرو۔ [3] لوگوں کی دولت سے بے رغبتی: چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے حکم کو وہی نافذ کرسکتا ہے جو رشوت نہ لیتا ہو اور ریا کاری نہ کرتا ہو اور طمع ولالچ سے پاک ہو۔‘‘ [4] ذہانت و دور اندیشی: قاضی کا ذہین ودور اندیش ہونا ضروری ہے تاکہ معاملات کی حقیقت سے واقف ہوسکے۔ چنانچہ امام شعبی سے روایت ہے کہ کعب بن سوار عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے پاس ایک عورت آئی اور کہا: اے امیر المومنین! میں نے اپنے شوہر سے بہتر آدمی کبھی کسی کو نہیں دیکھا، اللہ کی قسم! وہ پوری رات نمازوں میں گزارتا ہے اور پورا دن روزہ سے رہتا ہے، سخت گرمی میں بھی روزہ نہیں توڑتا، آپ نے اس عورت کے لیے
[1] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۴۳۔ [2] النظام القضائی، ص: ۷۶۔ [3] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۵۹۔ [4] النطام القضائی، ص:۷۴۔ عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۴۴۔