کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 458
سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کی سیاسی واجتہادی زندگی اور آپ کے سرکاری خطوط سے محکمۂ عدل و قضاء سے متعلق یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ قاضیوں کی تنخواہ کا معیار کیا ہو؟ کن وجوہات کی بنا پر ان کو معزول کیا جائے؟ ان کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں؟ ان کے اوصاف وفرائض کیا ہیں؟ وہ کن مصادر اور اصولوں کو بنیاد بنا کر فیصلہ دیں گے؟ نیز یہ کہ عدلیہ سے متعلق فیصلہ کے علاوہ دیگر معاملات میں خلیفۂ وقت پر ضروری ہے کہ قاضی کے فیصلہ کو تسلیم کرے۔ قاضیوں کی تقرری، ان کی تنخواہیں اور عدالتی دائرہ کار : ۱: قاضیوں کی تقرری: بنیادی طور پر قاضی کی تقرری کا اختیار خلیفہ کو ہوتا ہے جیسے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شریح کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا تھا، یا والی ریاست قاضی کی تقرری کرتا ہے بشرطیکہ خلیفہ نے اسے اختیار دیا ہو جیسے کہ والی مصر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عثمان بن قیس بن ابوالعاص کو مصر کا قاضی مقرر کیا تھا، بہرحال قاضی کی تعیین کا حق خلیفہ ہی کو ہے خواہ بذات خود مقرر کرے یا اپنے گورنر کو یہ اختیار سونپ دے۔ قاضیوں کی تقرری خلیفہ کے حق میں اس بات سے مانع نہیں ہے کہ خلیفہ خود اس منصب کے حقوق کو ادا نہیں کرسکتا، کیونکہ منصفی اس کے اختیار میں ہے اور وہ دوسرے کو اپنی صواب دید پر اس کا ذمہ دار بناتا ہے، پس منصفی کا پہلا حق اسی کو ہے، اور دوسرا کوئی بھی شخص اس وقت تک قاضی اور منصف نہیں کہا جاسکتا جب تک کہ خلیفہ خود یا اپنے گورنر کے ذریعہ سے اس کو منصب قضاء پر فائز نہ کردے۔ [1] خلیفہ کے لیے یہ جائز ہے کہ قاضی ومنصف کو معقول اسباب کی بنا پر اس کے عہدہ سے معزول کردے، مثلاً قاضی کے اندر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوجائے یا اس کے خلاف ایسے ثبوت فراہم ہوجائیں جو اس کی عدالتی کارگزاریوں پر سوالیہ نشان لگاتے ہوں۔ بہرحال اگر کوئی معقول وجہ نہ ہو تو خلیفہ کو چاہیے کہ اسے معزول نہ کرے۔ اس لیے کہ قاضی کا تعین مسلمانوں کے مفاد ومصلحت کے لیے ہوتا ہے، لہٰذا جب تک ان مفادات کا حصول ہورہا ہو اسے منصب قضاء پر باقی رکھنے ہی میں بھلائی ہے۔ [2] بہرحال عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی صواب دید پر بعض قاضیوں (منصفوں) کو معزول کرکے دوسروں کو ان کی جگہ پر مقرر کیا۔ [3] مثلاً ابومریم حنفی میں کچھ کمزوریاں اور کوتاہیاں دیکھیں تو انہیں معزول کردیا۔ ۲: قاضیوں کی تنخواہیں: عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے گورنروں کو نصیحت کرتے تھے کہ منصب قضاء کے لیے صالح افراد کا انتخاب کریں، اور
[1] مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ، ص:۴۳۸۔ نیز دیکھئے: الخراج، أبویوسف، ص:۱۱۷، م:۱۹۱۳ء مصر۔ [2] البیان والتبیین: ۲/ ۱۵۰۔ [3] جامع بیان العلم وفضلہ: ۲/ ۷۰۔