کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 455
قاضیوں کے نام عمر رضی اللہ عنہ کے چند اہم خطوط : عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عدلیہ ونظام قضاء کے لیے نہایت اعلیٰ وصاف دستور بنایا، فقہ اسلامی پر گہری نظر رکھنے والے بہت سارے مشاہیر نے اس دستور کی توضیح وتشریح کی ہے۔ عدلیہ سے متعلق فاروقی دستور ہمیں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے نام بھیجے گئے آپ کے خط میں صاف نظر آتا ہے۔ وہ خط یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم عبداللہ عمر بن خطاب امیر المومنین کی طرف سے عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ اشعری) کے نام! سلام علیک … اما بعد: واضح ہو کہ مقدمات کا فیصلہ ایک فریضہ ہے، اور ایک سنت ہے جس کی پیروی ہوتی رہی ہے۔ جب کوئی مقدمہ تمہارے پاس آئے تو اس کے تمام پہلوؤں کو اچھی طرح سمجھو، (اور جب صحیح فیصلہ پر پہنچ جاؤ تو اسے نافذ بھی کرو) کیونکہ زبانی فیصلہ بے سود ہے، جب تک اسے نافذ نہ کیا جائے۔ مدعی اور مدعا علیہ کے ساتھ ایک سا برتاؤ کرو۔ کسی فریق سے پاس بٹھانے، التفات دکھانے، یا انصاف کرنے میں کوئی امتیاز نہ برتو، تاکہ بااثر آدمی یہ توقع نہ کرے کہ تم اس کے ساتھ رعایت کرو گے، اور غریب کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ اس کے ساتھ بے انصافی سے پیش آؤ گے۔ مدعی سے گواہ مانگے جائیں اور مدعا علیہ سے قسم لی جائے۔ مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے بشرطیکہ اس سے قرآن کا کوئی قانون نہ ٹوٹے، اگر آج تم کوئی فیصلہ کرو اور بعد میں غور و خوض کر کے صحیح فیصلہ تمہاری سمجھ میں آجائے تو پہلا فیصلہ حق کو قبول کرنے سے مانع نہ ہو، اس لیے کہ حق ازلی ہے اور اس کی طرف رجوع کرنا غلطی پر اڑے رہنے سے بہتر ہے۔ جو معاملہ (قضیہ) تمہارے دل میں خلش پیدا کیے ہوئے ہو اور کتاب وسنت میں اس کا حل نہ ملے، اس پر خوب خوب غور وفکر کرو، اشباہ ونظائر کو تلاش کرو اور اس جیسے مسائل کو قیاس کرو اور جس کے بارے میں تم سمجھو کہ انصاف سے قریب تر ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ پسند بھی، اسے اختیار کرلو۔ کوئی شخص اگر اپنا دعویٰ ثابت کرنے یا گواہ فراہم کرنے کے لیے مہلت مانگے تو اسے مہلت دے دو۔ اور اگر میعاد مقررہ میں وہ گواہ پیش کردے تو اس کا حق دلوا دو، ورنہ اس کے خلاف فیصلہ کرو، یہ بہترین طریقہ کار ہے جس سے فریقین کی نظر میں نہ تو تمہاری غیر جانبداری مشتبہ ہوگی اور نہ انہیں تمہارے فیصلہ پر اعتراض کا موقع رہے گا۔ ہر مسلمان کو گواہی دینے کا حق ہے، الا یہ کہ کسی سنگین جرم میں کوڑوں کی سزا بھگت چکا ہو، یا جھوٹی شہادت کے لیے بدنام ہو۔ (اگر آزاد کردہ غلام ہے تو) اس پر غلط آقا کی طرف خود کو منسوب کرنے یا (آزاد ہے تو) غلط حسب نسب بتانے کا الزام ہو۔ تمہاری چھپی بداعمالیوں (کی سزا) کا معاملہ اللہ
[1] أخبار القضاء، وکیع: ۲/ ۱۸۸۔ [2] النظام القضائی فی العہد النبوی، ص: ۴۹۔ [3] أخبار القضاء، وکیع: ۱/ ۱۰۸۔ [4] وقائع ندوۃ النظم الإسلامیۃ فی أبی ظبی: ۱/ ۳۷۵