کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 453
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: بِمَ تَقْضِیْ یَا مَعَاذُ؟ یعنی اے معاذ تم کیسے فیصلہ کرو گے؟ معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب میں عرض کیا: اللہ کی کتاب سے، اگر اس میں نہ ملا تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، اور اگر اس میں بھی نہ ملا تو اپنے اجتہاد وصواب دید سے، اور اس میں کوئی جھجک محسوس نہیں کریں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر معاذ رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی۔ [1] خلاصہ کلام یہ کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے محکمۂ عدل اور اس کے لوازمات کو ترقی دی اور آپ کے دورِ حکومت میں دیگر حکومتی اداروں سے محکمۂ عدل کو الگ کرلینے اور اسے مستقل ادارہ تسلیم کرلینے سے لوگوں کی زندگی میں اس کا واضح اثر نظر آنے لگا۔ ملحوظ رہے کہ آپ نے محکمۂ عدل کو مستقل حکومتی ادارہ تسلیم تو ضرور کیا لیکن ایسا نہیں ہوا کہ اس کے ذمہ داروں سے بعض معاملات میں تفصیل نہ طلب کی ہو۔ بلکہ اپنے بعض گورنروں کو انتظامی اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ انہیں منصب قضاء پر بھی فائز رکھا اور عدالتی معاملات میں ان سے خط وکتابت کرتے رہے۔ چنانچہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے بصرہ، پھر کوفہ پر گورنر ہوتے ہوئے ان سے قضاء کے بارے میں خط وکتابت کی، اور شام پر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گورنر ہوتے ہوئے ان سے قضا کے چند نزاعی معاملات میں مراسلت کی۔ اسی طرح ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بھی بعض عدالتی معاملات میں خط وکتابت کی۔ مرکزی حکومت کی طرف سے جو شخص ریاست کا قاضی مقرر کیا جاتا تھا وہ پوری ریاست کا قاضی ہوتا تھا، خواہ اسے خلیفہ نے بذات خود مقرر کیا ہو یا خلیفہ کے حکم سے ریاستی گورنر نے مقرر کیا ہو۔ اس قاضی کا مرکزی دفتر ریاست کی راجدھانی میں ہوا کرتا تھا اور تمام نزاعی معاملات وعدالتی اختیارات اس کے ہاتھوں میں ہوتے تھے۔ [2] اسلامی دارالحکومت کے علاوہ کوفہ ومصر جیسی دیگر بڑی بڑی اسلامی ریاستوں میں بھی عموماً عدل وانصاف کے محکمہ کو دیگر حکومتی اداروں سے الگ کردیا گیا تھا، جب کہ بعض ریاستوں میں ان کے حکام کو دیگر ملکی اداروں کے ساتھ محکمۂ عدل کو بھی دیکھنا پڑتا تھا، لیکن یہ اس حالت میں تھا کہ جب منصب قضاء ریاست کے دیگر امور کی انجام دہی میں اس کے لیے مانع نہ ہوتا تھا۔ محکمۂ عدل وقضاء سے متعلق گورنروں سے آپ کی جو مراسلت تھی وہ اسی نوعیت کی تھی۔ بسا اوقات مدینۃ النبی میں آپ کے مقرر کردہ قاضی موجود ہوتے لیکن آپ خود ہی فیصلہ دیتے اور قاضی کا کام کرتے۔ [3] آپ نے اپنے عہد خلافت میں جن لوگوں کو محکمۂ عدل میں صرف منصب قضا کے لیے خاص کیا تھا ان کے نام یہ ہیں: