کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 445
کو چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر ازواجِ مطہرات کا سالانہ وظیفہ دس ہزار (۰۰۰،۱۰) درہم تھا اور جویریہ، صفیہ ومیمونہ کا اس سے کم تھا۔ کچھ دنوں بعد ان ازواج مطہرات کا وظیفہ بارہ ہزار (۰۰۰،۱۲) سالانہ تک پہنچ گیا۔ مگر صفیہ اور جویریہ رضی اللہ عنہما کا سالانہ عطیہ چھ ہزار (۰۰۰،۶) درہم ہی رہا، لیکن جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمر رضی اللہ عنہ سے وظائف میں تمام امہات المومنین کے ساتھ یکساں برتاؤ کا مطالبہ کیا تو آپ نے ان کی موافقت کی اور سب کا وظیفہ یکساں کردیا۔ مہاجرین اور انصار میں ہر ایک کا سالانہ وظیفہ چار ہزار (۰۰۰،۴) درہم تھا، البتہ عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے لیے آپ نے ساڑھے تین ہزار (۵۰۰،۳) درہم سالانہ وظیفہ مقرر کیا اور اس کی علت یہ بتائی کہ انہیں ان کے باپ ہجرت کراکے لائے تھے، یعنی یہ ان مہاجرین کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے خود ہجرت کی ہے۔[1] عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہجرت کے وقت بچے تھے۔ بعد میں آپ نے مہاجرین کا وظیفہ ایک ہزار اور بڑھا دیا۔ اس طرح ان کا سالانہ وظیفہ ساڑھے چار ہزار (۴۵۰۰) ہوگیا۔ [2] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ وظیفہ ان مہاجرین وانصار کو ملتا تھا جنہوں نے غزوۂ بدر میں شرکت کی تھی [3] اور جو مہاجرین وانصار صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے ان کا سالانہ وظیفہ تین ہزار (۰۰۰،۳) درہم تھا۔ [4] اسی طرح ہر نو مولود کا سالانہ وظیفہ سو (۱۰۰) درہم ہوا کرتا تھا، لیکن اس کا اعتبار شروع میں اس وقت سے ہوتا تھا جب کہ بچہ ماں کا دودھ پینا چھوڑ دے، لیکن جب یہ خوف پیدا ہوگیا کہ مائیں بچوں کا وظیفہ لینے کی خاطر وقت سے پہلے انہیں دودھ چھڑانے لگیں گی تو آپ نے ولادت کے بعد سے ہی نومولود کا وظیفہ جاری کردیا۔ البتہ موالی جو معززین میں سے تھے، مثلاً ہرمزان وغیرہ تو ان کے مسلمان ہونے کے بعد ان کا سالانہ وظیفہ دو ہزار (۰۰۰،۲) درہم مقرر کیا، اس کے علاوہ بھی کئی وظائف مقرر کیے، واضح رہے کہ اس سالانہ وظیفہ کے ساتھ ساتھ آپ مختلف مواقع پر مختلف عطیات سے لوگوں کو نوازتے رہتے تھے۔ [5]مذکورہ افراد میں جن کے لیے جو وظیفہ مقرر ہوتا اس پر مزید ہر مہینے گندم کی شکل میں کچھ غلہ بھی بطور عطیہ دیتے تھے۔ [6] آپ نے اپنے عہد خلافت کے آخری ایام میں فرمایا: اگر ملکی خزانے میں زیادتی ہوئی تو ہر فرد کے لیے چار ہزار (۰۰۰،۴) درہم سالانہ وظیفہ مقرر کروں گا، ایک ہزار سفر کے لیے، ایک ہزار ہتھیار کے لیے، ایک ہزار بال بچوں کے لیے اور ایک ہزار گھوڑے وخچر (یعنی سواری) کے لیے۔ [7]
[1] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۱۹۸۔ [2] الأحکام السلطانیۃ، ص: ۲۲۷۔ سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۱۱۹۔ [3] الطبقات: ۳/ ۳۰۱۔ [4] تاریخ الیعقوبی: ۲/ ۱۵۳، ۱۵۴۔ [5] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۲۰۰۔