کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 438
زیادہ مستحق نہیں ہے، اس میں آدمی اور اسلام میں اس کی سبقت کی رعایت کی جائے گی، آدمی اور اس کی خوشحالی دیکھی جائے گی، آدمی اور اس کی مصیبت دیکھی جائے گی، آدمی اور اس کی ضرورت دیکھی جائے گی۔ [1] آپ نے عقیل بن ابی طالب، مخرمہ بن نوفل اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم کو بلایا، یہ لوگ قریش کے نوجوانوں میں سے تھے اور ان سے کہا: لوگوں کے ناموں کو ان کے درجات ومراتب کے اعتبار سے رجسٹر میں درج کرو، چنانچہ انہوں نے مستحقین میں سب سے پہلے بنو ہاشم کو پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے قبیلہ کو، پھر عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے قبیلہ کو، اسی طرح درجہ بدرجہ تمام قبائل کی فہرست تیار کی اور اسے عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا۔ جب آپ نے اسے دیکھا تو فرمایا: نہیں، میں اس طرح نہیں چاہتا تھا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے اور قرابت داروں سے شروع کرو، اور آپ کے اقرب فاقرب کا اعتبار کرو، یہاں تک کہ عمر کو وہاں درج کرو جہاں اللہ نے اسے رکھا ہے۔ چنانچہ آپ کے قبیلہ بنوعدی کے لوگ آپ کے پاس آئے اور کہا: آپ خلیفہ رسول ہیں اور ابوبکر کے بھی خلیفہ ہیں اور ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے۔ لہٰذا بہتر ہوتا کہ ان رجسٹرار (فہرست تیار کرنے والے) حضرات نے جہاں آپ کو درج کیا تھا خود کو وہیں رکھتے، آپ نے فرمایا: اے بنو عدی چپ رہو، چپ رہو، کیا مجھے روند کر کھانا چاہتے ہو اور میں اپنی نیکیاں تم کو دے دوں؟ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، تمہارا وہی درجہ ہے، یہاں تک کہ تم کو پکارا جائے اور تم پر ہی رجسٹر بند ہو، یعنی تم سب سے آخر میں درج کیے جاؤ۔ سنو! میرے دونوں ساتھی (نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ) ایک راستہ پر چل چکے ہیں، اگر میں ان کی خلاف ورزی کرتا ہوں تو میری بھی خلاف ورزی کی جائے گی۔ اللہ کی قسم! ہمیں دنیا میں برتری نہیں ملی اور ہمیں اپنے عمل پر اللہ کے یہاں ثواب ملنے کی امید نہیں ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شریف وبزرگ ترین فرد ہیں اور آپ کا قبیلہ عربوں میں اشرف ہے، پھر ان کا قریب سے قریب ترین فرد۔ اللہ کی قسم! اگر اہل عجم حسن عمل کے ساتھ آئیں، اور ہم (عرب خاندان و قبیلہ کی برتری لے کر) بغیر عمل کے آئیں تو وہ قیامت کے دن ہم سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق ہوں گے۔ جس کا عمل اسے پیچھے کردے اس کا حسب نسب اسے آگے نہیں لے جاسکے گا۔ [2] بہرحال عمر رضی اللہ عنہ نے دیوان کی تیاری وترتیب شروع کی اور اس میں مستحقین کے نام اور ان کے عطیات کی مقدار درج کی گئی، اس دیوان کا نام ’’دیوان جند‘‘ یعنی فوجی دیوان رکھا گیا، اس بنا پر کہ تمام عرب مسلمان اللہ کے راستے کے فوجی مجاہد ہیں۔ سب سے پہلے قبیلہ بنو ہاشم کے مجاہدین کا رجسٹر تیار کرایا، پھر ان میں جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ قرابت داری حاصل تھی، پھر ان کے بعد طبقہ بہ طبقہ اور قبیلہ بہ قبیلہ ہر ایک کو درج کیا، ہر مسلمان کے لیے معین مقدار میں عطیہ مقرر کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ کے اقرباء، اور
[1] مقدمہ ابن خلدون، ص:۲۴۴۔ سیاسۃ المال فی الإسلام، ص:۱۵۹۔ [2] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص:۱۵۹۔ [3] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص:۱۵۹۔ [4] الاحکام السلطانیۃ، الماوردی، ص: ۲۰۱۔ [5] السیاسۃ الشرعیۃ، ابن تیمیہ، ص: ۴۸۔ أولیات الفاروق، ص:۳۵۸۔