کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 436
ہے، جاؤ گھر چلے جاؤ، سوجاؤ، پھر جب صبح ہوگی تو میرے پاس آنا۔ بہرحال جب صبح ہوئی تو میں آپ کے پاس آیا۔ آپ نے پوچھا: تم (بحرین سے) کیا لائے ہو؟ میں نے کہا: پانچ لاکھ (درہم)۔ آپ نے فرمایا: کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟ جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا: ہاں جانتا ہوں۔ ایک لاکھ (اور پھر اسے پانچ مرتبہ شمار کیا) اسے اپنی پانچوں انگلیوں پر گنتے رہے۔ آپ نے پوچھا: کیا سب (دراہم) صحیح ہیں؟ میں نے کہا: میں تو یہی جانتا ہوں۔ پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا: اے لوگو! ہمارے پاس بہت مال (غنیمت) آگیا ہے اگر چاہو تو وزن کرکے تم کو دے دوں اور چاہو تو گن کر دے دوں، دوران آپ کے سامنے ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا: امیر المومنین! میں نے شاہانِ عجم کو دیکھا ہے کہ وہ عطیات کی تقسیم کے لیے اپنا دیوان بناتے ہیں۔ [1] یہ سن کر آپ نے بھی اس کی خواہش ظاہر کی [2] اور رجسٹر ودفاتر کی تنظیم وتنسیق کے لیے مسلمانوں سے مشورہ لیا، ولید بن ہشام بن مغیرہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر حاضرین نے اپنی اپنی رائے دی اور ولید بن ہشام رضی اللہ عنہ نے کہا: میں شام گیا ہوں، میں نے وہاں کے بادشاہوں کو دیکھا ہے کہ وہ لوگ عام عطیات ومصارف اور فوجی اخراجات کے لیے الگ الگ رجسٹر رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے بھی ایسا ہی کیا اور بعض روایات کے مطابق مذکورہ بات خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہی تھی۔ [3] اور بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مدینہ میں چند فارسی سرداران تھے، انہوں نے جب اس موقع پر عمر رضی اللہ عنہ کی حیرت واستعجاب دیکھی تو آپ سے کہا: امیر المومنین! حکام کسریٰ کے پاس دیوان نام سے ایک نظام رائج ہے۔ اس میں باقاعدہ ان کی آمدنی اور اخراجات درج ہوتے ہیں، اس کا کوئی جز بھی نہیں چھوٹتا، عطیات کے مستحقین کے کئی درجات ہوتے ہیں، اس میں کوئی در اندازی نہیں ہوسکتی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر توجہ دی، اور کہا: ذرا اس کی کیفیت ٹھیک سے بتاؤ، فارسیوں کے سردار نے اسے دوبارہ تفصیل سے بتایا، پھر آپ نے رجسٹر تیار کروایا اور عطیات مقرر کیے۔ [4] عثمان رضی اللہ عنہ نے دفاتر و رجسٹر تیار کرانے کے مشورہ کو خوب سراہا اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اپنی رائے دیتے ہوئے کہا: میرے خیال میں مال بہت ہے، لوگوں کے لیے کافی ہوگا۔ اگر احاطہ نہ کیا گیا کہ معلوم ہوجائے کہ کس نے اپنا حصہ لیا اور کس نے نہیں لیا تو ڈر ہے کہ بدنظمی پیدا ہوجائے۔ [5] یہ چند روایات ہیں جو مختلف مواقع پر حاضرین سے متعدد مرتبہ آپ کے مشورہ لینے کی وجہ سے ایجاد دواوین ودفاتر کے متعدد اسباب پر دلالت کرتی ہیں۔
[1] مقدمہ ابن خلدون، ص:۲۴۳۔ سیاسۃ المال فی الإسلام، ص:۱۵۵۔ [2] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۱۵۷۔