کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 435
اور دواوین سے مراد وہ رجسٹر اور دفاتر ہیں جن میں ملک کے مختلف معاملات درج کیے جاتے ہیں۔ فارسیوں کے نزدیک دیوان اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں معاملات کو درج کرنے والے (منشی) اور ان رجسٹروں کو ترتیب دینے والے عہدیداران جمع ہوتے تھے۔ [1] موجودہ دور میں بیت المال کا جو مفہوم ہے اسلامی سلطنت کی تعمیر کے وقت اس معنی ومفہوم میں اس کا وجود نہ تھا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مالیاتی سیاست یہ تھی کہ آپ ضرورت مندوں میں اموال تقسیم کرنے اور خرچ کرنے میں تاخیر نہیں کرتے تھے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی طریقہ نبوی پر کاربند رہے اور عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں اسی طریقہ پر عمل کرتے رہے، یہاں تک کہ جب اسلامی سلطنت کی گرفت مشرق ومغرب میں دور دور تک دراز ہوگئی، تو ایک ایسے لائحہ عمل کی ایجاد پر آپ نے غور وخوض شروع کیا جس میں زکوٰۃ وصدقات، خراج اور جزیہ کی آمدنی اور فتوحات میں ملنے والے اموالِ غنیمت کو منظم طریقہ سے استعمال کیا جاسکے، نیز اسلامی افواج کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور ضرورت تھی کہ مردم شماری کرکے ان کی ضروریات کو درج کیا جائے تاکہ سرکاری عطیات سے کسی کے محروم رہنے کا اندیشہ باقی نہ رہے، اور ایسا نہ ہو کہ ان عطیات سے کچھ ہی لوگ بار بار نوازے جائیں۔ بہرحال اسلامی فتوحات میں پیش قدمی ہوتی رہی، اور ان کے نتیجہ میں مسلمانوں کو اس قدر اموالِ غنیمت حاصل ہوئے کہ اس سے پہلے انہوں نے کبھی دیکھا نہ تھا۔ اس وقت خلیفۂ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ ان اموال کی مکمل نگرانی صرف خلیفۂ وقت اور اس کے امراء کے بس کی بات نہیں ہے اور ملک کی اقتصادی حکمت ومصلحت بھی اس میں نہیں کہ بلا کسی حساب وکتاب کے مالیاتی معاملات کی لگام مکمل طور سے عمال وافسران اور گورنروں کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ چنانچہ اس فکر کے نتیجہ میں ملکی خزانے کی حفاظت اور مناسب استعمال کے لیے مستحکم اصولوں پر دیوان کی شکل میں ایک لائحہ عمل تیار ہوا، اور اسلامی سلطنت میں سب سے پہلے اسے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رواج دیا۔ [2] جو واقعہ اس لائحہ عمل کی ایجاد کا سبب بنا اس کی تفصیل مؤرخین نے یوں بیان کی ہے: ’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بحرین سے پانچ لاکھ(5،00،000) درہم (مالِ غنیمت) لے کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، آپ نے وہاں کے لوگوں کے بارے میں مجھ سے پوچھا اور میں نے آپ کو بتایا۔ پھر آپ نے مجھ سے کہا: تم وہاں سے کیا لائے ہو؟ میں نے کہا: پانچ لاکھ (درہم)۔ آپ نے فرمایا: کیا پاگل ہوگئے ہو، کچھ جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، ہاں، ایک لاکھ، پھر لاکھ، پھر لاکھ، پھر لاکھ، اور پھر لاکھ۔ آپ نے فرمایا: شاید تم کو نیند آرہی
[1] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۸۸۔ [2] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۸۹۔ [3] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۸۹۔ [4] سیاسۃ المال فی الاسلام، ص: ۱۵۵۔