کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 433
مسلمانوں اور ان کے پڑوسیوں میں تجارتی لین دین میں کافی سہولت ہوگئی، اور لوگوں کو متعدد و نوع بہ نوع ضروریات کی بہ آسانی تکمیل ہونے لگی۔ آپ نے بیت المال تک آنے والی ملک کی داخلی آمدنی کی تنظیم وتنسیق پر نہ صرف توجہ دی بلکہ ان اسباب وذرائع کو بھی منظم کیا جو بیت المال کی آمدنی میں اضافہ اور ملک میں خوش حالی وپرمسرت زندگی کا سبب بن سکیں، اسی وجہ سے آپ نے بین الاقوامی تجارت پر توجہ دی اور غیر ملکی تاجروں سے حسن سلوک کا مظاہرہ کیا، گورنروں اور امراء کو غیر ملکی تاجروں کے ساتھ مخصوص رواداری کرنے کا حکم بھیجا، اور آپ ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ کسٹم وغیرہ کی وصولی میں ان تاجروں کو سارے ملکی حقوق میسر ہوں، ان کے ساتھ کسی طرح کا تعصب نہ برتا جائے۔ [1] ۵: فے اور مالِ غنیمت: ہر وہ مال جو مسلمانوں کو مشرکین وکفار سے بغیر جنگ وجدال کے حاصل ہو اسے فے کہا جاتا ہے، مال فے کا خمس،خُمس کے مستحقین میں تقسیم کیا جائے گا۔ [2]ان مستحقین کا بیان قرآن میں اس طرح آیا ہے: ﴿مَا أَفَاءَ اللّٰهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَللّٰهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ(الحشر:۷) ’’جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں سے اپنے رسول پر لوٹایا تو وہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے۔‘‘ اور مالِ غنیمت حربی کفار سے چھینے ہوئے اس مال کو کہتے ہیں جس پر مسلمان بذریعہ جنگ قابض ہوئے ہوں۔ [3] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ للّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّٰهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(الانفال:۴۱) ’’اور جان لو کہ بے شک تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو تو بے شک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس
[1] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص:۱۳۲۔ [2] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۱۳۳۔