کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 426
خراج (لگان) والی زمین کی عدم تقسیم کے پیچھے کون سے بلند مقاصد اور امن وامان سے وابستہ مفادات پوشیدہ تھے؟ خراج والی زمین کی عدم تقسیم پر امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور آپ کے مویدین صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے منظور کی جانے والی قرار داد کے ضمن میں امن و امان سے وابستہ کئی مفادات پوشیدہ تھے، ان مفادات کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں: ۱: داخلی مفادات: داخلی مفادات میں سب سے پہلا اور اہم مقصد مسلمانوں کے اختلافات اور ان کے باہمی جنگ وجدال کے تمام راستوں کو بند کرنا، قومی وملکی زندگی کے لیے مستحکم ذرائع آمدنی پیدا کرنا، اور مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کے لیے مادی ضروریاتِ زندگی پورا کرنا تھا۔ ۲: خارجی مفادات: خارجی مفادات میں سب سے اہم اسلامی حکومت کی سرحدوں کی حفاظت، اس کے لیے مطلوبہ افراد واخراجات کی تکمیل، اور اسلامی افواج کی ہمہ وقت تیاری تھی اور اس کا تقاضا یہ تھا کہ عام افواج، سرحدی محافظوں کی تنخواہوں، اور ان کے اہل وعیال کے لیے عطیات کا انتظام ہو۔ غیر ضروری اخراجات سے ہٹ کر سامان جنگ اور اسلحہ خریداری پر رقوم خرچ ہوں، تاکہ یہ اسلامی افواج خراج جیسی ملکی آمدنی پر اعتماد کرتے ہوئے ملکی سرحدوں اور اس کی اراضی کی بحسن وخوبی حفاظت کرسکیں۔ مذکورہ دونوں مفادات میں یہ بات قابل غور ہے کہ خلیفہ وقت نے معاشرہ کو سیاسی امن واستحکام دینے کے لیے صرف اپنے ہی دور کے لیے نہیں بلکہ اپنے بعد کے ادوار کے لیے بھی یہ کہہ کر کہ ’’ان لوگوں کا کیا ہوگا جو بعد میں مسلمان ہو کر آئیں گے‘‘ اور یہ کہ ’’میں ناپسند کرتا ہوں کہ بے سہارا مسلمان چھوڑ دیے جائیں‘‘ مضبوط بنیادوں پر ایسی قرار داد پاس کرائی کہ جو مستقبل میں امن وسلامتی کے لیے آپ کی دور رس نگاہوں کی غماز ہے اور ہوا بھی ایسا ہی، خلیفہ ثانی کے دور میں سیاسی واقعات وحادثات کی کثرت وتنوع نے آپ کی منظور کردہ قرار داد کی صداقت کو ثابت کردیا۔ @ مفتوحہ زمین کی عدم تقسیم سے متعلق متعدد مراحل سے گزر کر پاس ہونے والی قرار داد سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: ایک تو یہ کہ مسلمانوں کے گراں قدر مفادات سے وابستہ بعض اہم قرار دادیں کبھی کبھار طویل وقت اور کافی جہد ومشقت کی متقاضی ہوتی ہیں، نیز ایک دوسرے کے اظہار خیال اور آراء ودلائل پیش کرنے کے لیے قدرے صبر وتحمل چاہتی ہیں، بشرطیکہ یہ وقفہ اتنا طویل نہ ہو کہ لوگوں کو اختلاف کرنے اور اس کی کھائی کو مزید گہرا کرنے کا موقع ملے، یا حال ومستقبل میں امت کے امن و استحکام سے وابستہ مفادات میں سے کسی مفاد ومصلحت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہونے لگے۔ دوسری بات یہ کہ بعض اہم قراردادیں جو کافی بحث ومباحثہ، طویل گفتگو اور ابتدائی ناکامی کے بعد بڑی مشکل سے پاس ہوتی ہیں،
[1] الخراج، أبویوسف، ص:۴۰۔ سیاسۃ المال فی المال فی الإسلام، ص: ۱۰۸۔ [2] الدولۃ العباسیۃ، خضری، ص: ۱۴۴۔ سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۱۰۹۔ [3] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۱۱۱۔ [4] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۱۱۴۔ [5] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۱۱۸۔