کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 423
میں آنے والی ہر زمین کے لیے آپ کا عمل ایک سنت بن گیا جس کی پیروی ہوتی رہی اور فاتح حکام مفتوحہ زمین کو ان کے مالکان کے قبضہ میں دے کر ان سے خراج وصول کرتے رہے۔ یہیں سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اموال غنیمت میں منقولہ و غیر منقولہ یعنی اراضی کی تقسیم میں تفریق کا موقف اختیار کیا، اس میں آپ شرعی نصوص کو قوی ترین دلیل مانتے تھے، آپ نے شرعی نصوص سے دلائل کو جمع کیا اور ان میں آپ کی کامل و درست نظر کو جہاں تک رہنمائی ملی اسی اعتبار سے انہیں آپ نے بطور استدلال استعمال کیا۔ علاوہ ازیں آپ کے اس اقدام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مفتوحہ ممالک کے باشندوں میں ان کی غیر منقولہ جائدادیں و ملکیتیں انہی کے ہاتھوں میں باقی رہیں اور اسلامی لشکر اراضی و دیگر غیر منقولہ جائداد، اسباب عیش و عشرت اور مال و دولت کے فتنوں و جھگڑوں سے محفوظ رہا۔[1] عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہر اہم مسئلہ میں قرآن کی طرف پلٹتے تھے، وہیں سے اس کا حل ڈھونڈتے تھے، مختلف آیات کو مختلف اعتبار سے پڑھتے، آیات کے مفہوم و منطوق کو سمجھنے میں تدبر و تفکر سے کام لیتے، مفہوم کو منطوق کے موافق کرتے، بعض آیات کی بعض آیات سے تخصیص کرتے یہاں تک کہ اس نتیجہ تک پہنچ جاتے جو متوقع مصلحتوں کے مفاد میں ہو۔ آپ کی فقہی بصیرت شریعت کی روح سے میل کھاتی ہوئی ہوتی تھی۔ صرف ظاہری نصوص پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ دراصل شرعی نصوص کے ذریعہ سے شرعی مقاصد تک آپ کی بصیرت و رسائی نے آپ کے لیے مذکورہ تمام علمی مراحل کو آسان تر کردیا تھا، کیونکہ یہ متعدد مراحل سے گزرنے والی اور ایسی پر پیچ کارروائی ہے کہ جس میں صرف اسی کے لیے قدم رکھنا بہتر ہے جسے اجتہاد پر قدرت وتجربہ حاصل ہو، درست وپختہ سمجھ سے نوازا گیا ہو، اور اگر اپنے اجتہادی فیصلہ پر اقدام کرنا مناسب سمجھے تو اقدام کی اس میں جرأت بھی ہو۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ پیش نظر مسئلہ میں اپنے اجتہادی فیصلہ پر سختی سے جمے رہے حتیٰ کہ بعض لوگ یہاں تک سوچ بیٹھے کہ بعض اوقات آپ شرعی نصوص کو نظر انداز کردیتے تھے۔ حالانکہ آپ کی شخصیت ہرگز ایسی نہ تھی، آپ ایک ممتاز مجتہد تھے آپ کو ایسا ربانی ملکہ ملا تھا کہ آپ کا ہر اجتہاد شرعی روح کے مماثل وموافق ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ بسا اوقات آپ کی کوئی مخصوص رائے ہوتی تھی اور اسی کے موافق قرآن کی آیات نازل ہوجاتیں۔ اس واقعہ سے مزید ایک نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کی تفسیر کرتی ہیں اور ایسے ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بھی ہے۔ لہٰذا مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ جب کسی مسئلہ کا شرعی حکم معلوم کرے تو اس سے متعلق تمام نصوص پر غور کرے، نہ کہ چند ایک پر اکتفا کرے، ورنہ ایسی صورت میں اس کا اجتہاد غیر معتبر اور نتیجہ ناقابل عمل ہوگا۔ [2]
[1] السنن الکبٰری، النسائی، الحج (۲/۳۸)، الفتاوی:۲۰/۳۱۳۔ [2] الفتاوی: ۲۰/۳۱۲،۳۱۳۔