کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 415
جن کی وجہ سے وہ لوگ کافی حد تک ملکی سیاست، آباد کاری کے اصول اور تعمیر وترقی کے نظام سے آشنا ہوگئے تھے اور پھر انہی ضروریات کی تکمیل کے لیے انہوں نے سڑکوں کی اصلاح اور پل کی تعمیر جیسی بہت سی چیزیں ایجاد کیں جو پہلے موجود نہ تھیں کیونکہ یہی چیزیں ترقی یافتہ اقوام کی زندگی میں اصل معاون ہیں۔ مختصر یہ کہ اسلامی تہذیب کی تشکیل جدید کے پیش نظر تمام معاملات کو منظم کیا گیا، ملکی سرحدوں میں وسعت کی گئی اور مالیاتی نظام کے اصولوں کو مضبوط کیا گیا۔ [1] معاہدۂ جزیہ کی شرائط اور اس کی ادائیگی کا وقت: خلفائے راشدین کے نظام حکومت کی روشنی میں فقہائے شریعت نے معاہدۂ جزیہ کی چند شرائط مستنبط کی ہیں جن کی پاس داری ذمیوں کے لیے واجب ہے:  وہ لوگ اللہ کی کتاب قرآنِ مجید پر کوئی اعتراض اور اس میں تحریف نہیں کریں گے۔  وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور تحقیر سے مکمل اجتناب کریں گے۔  دین اسلام کی برائی نہیں کریں گے اور نہ اس پر طعن وتشنیع کریں گے۔  کسی مسلمان عورت سے زنا کریں گے اور نہ اس سے نکاح کریں گے۔  کسی مسلمان کو اس کے دین کے بارے میں آزمائش میں نہیں ڈالیں گے اور نہ اس کے مال اور دین پر دست درازی کریں گے۔  حربی کافروں کی مدد نہیں کریں گے اور نہ ان کے مال داروں سے دوستی کریں گے۔ [2] البتہ یہ مسئلہ کہ جزیہ کی ادائیگی کا وقت کیا ہے؟ تو اس سلسلے میں عمر رضی اللہ عنہ نے سال کے خاتمہ کو معیار بنایا۔ سال کے خاتمہ سے میری مراد فصلی سال کے آخری ایام ہیں۔ عہد فاروقی میں جزیہ کی ادائیگی کے وقت میں یہ تبدیلی ملکی حالت میں امن واستقرار کے پیش نظر ہوئی کیونکہ امن واستقرار اس بات کا متقاضی ہے کہ جزیہ کی ادائیگی کے لیے ملک اور جزیہ دہندگان کے سامنے مناسب اوقات متعین ومنظم ہوں۔ نیز یہ واضح رہے کہ جزیہ کی وصولی اس وقت کی جائے جب غلہ جات کاٹ لیے جائیں۔ مؤرخین نے اسی کو ’’فصلی سال کا آخر‘‘ قرار دیا ہے، اسی میں مشقت سے چھٹکارا اور جزیہ دہندگان کے لیے آسانی وراحت ہے۔ [3] ۳: خراج (لگان): خراج کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے: ایک عمومی معنی جس کا مطلب ہے کہ صدقات وزکوٰۃ کے علاوہ ہر
[1] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۷۲ [2] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۷۳۔ النظام الإسلامی المقارن، ص: ۳۹ [3] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۷۳ [4] الأحکام السلطانیۃ والولایات الدینیۃ، ص: ۱۶۴