کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 414
تقاضا تھا کہ ان کا پاس ولحاظ رکھا جائے، نیز ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کے بیت المال اور ملکی آمدنی میں اضافہ اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ اسلامی سلطنت سے بھاگ کر رومی سلطنت اور اس کی فوج میں شامل ہوجائیں۔ [1] البتہ یہ بحث کہ ان سے وصول کیا جانے والا مال کیا زکوٰۃ ہے یا جزیہ؟ تو صحیح بات یہ ہے کہ وہ جزیہ ہے، کیونکہ اس کے مصارف وہی ہیں جو خراج کے مصارف ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ زکوٰۃ کی ادائیگی غیر مسلموں پر واجب نہیں ہے۔ نیز ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جزیہ حفاظت کا مماثل ومتبادل ہے اور بنو تغلب مسلمانوں کی حفاظت و نگرانی میں تھے … ساتھ ہی ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کلی وعملی طور پر وہ جزیہ بھی نہیں تھا، کیونکہ بنو تغلب کے نصاریٰ پر جو معاوضہ مقرر کیا گیا تھا وہ ان اموال سے تھا جن پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے۔ پس مسلمانوں کی ہر چیز میں زکوٰۃ ہے خواہ غلہ جات ہوں، پھل ہوں، مویشی ہوں، یا سونا اور چاندی ہوں۔ اور یہی چیزیں ان ذمیوں سے دگنی وصول کی جاتی تھیں، یعنی جس طرح ان کے مردوں پر مقررہ معاوضہ دینا واجب تھا اسی طرح عورتوں پر بھی واجب تھا اشخاص وافراد پر اس کا دارو مدار نہ تھا۔ پس یہ شکل عرف میں ’’جزیہ‘‘ کا مکمل مفہوم ادا نہیں کرتی۔ [2] ہر چند کہ اسے زکوٰۃ کا نام دیا جائے یا جزیہ کا، دونوں صورتوں میں وہ ایک ٹیکس ہی ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ذمی افراد اسلامی حکومت کی تابع داری قبول کرنے پر راضی ہیں۔[3] مفتوحہ ممالک پر جزیہ کے علاوہ عربوں کے دیگر حقوق بھی عائد ہوتے تھے۔ دور فاروقی میں ان حقوق کی جدید اور ترقی یافتہ شکلیں ہوگئیں مثلاً اگر حاکم یا مسلمانوں کے سفراء، نامہ بردار، یا عام مسلمان مفتوحہ ممالک میں جاتے ہیں تو وہاں کے لوگوں پر ان کی ضیافت واجب ہے۔ آپ نے اپنے دورِ خلافت میں مہمان نوازی کی مدت تین دن مقرر کردی۔ ان ایام میں مہمانوں کی انہی چیزوں سے ضیافت ہوگی جنہیں وہ خود کھاتے ہیں، بکری اور مرغی نیز جو چیز کھلانے کی طاقت نہیں ہے اسے کھلانے پر میزبان کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔ [4] آپ کے دور میں ’’نوآبادیاتی ترقی‘‘ کے زیر عنوان چند ایسے معاہدوں کا ذکر ہوچکا ہے جن میں آپ نے مفتوحہ ممالک کے باشندوں سے شرط لگا دی تھی کہ وہ سڑکیں اور پل وغیرہ خود ہی بنائیں گے۔ بہرحال سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جزیہ کے نظام کو ترقی ملی، آبادی کے اعداد وشمار تیار ہوئے، مال دار، فقراء اور متوسط طبقہ کے لوگوں میں تفریق کی گئی، اور دیگر ایسی بہت ساری شرائط اور پابندیاں سامنے آئیں جن کا پہلے وجود نہ تھا۔ ایسا اس وجہ سے ہوا کہ آبادی بڑھ گئی اور اسلامی حکومت کا دائرہ مصر، شام، اور عراق تک وسیع ہوگیا، نیز دیگر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کا ملنا جلنا اور ان کی تہذیب وثقافت سے صبح وشام تعلق رکھنا، یہ ایسی چیزیں تھیں
[1] التاریخ الإسلامی: ۱۱/ ۱۴۱، ۱۴۲ [2] الاموال: ۱/ ۳۷۔ بحوالۃ : سیاسۃ المال فی الاسلام، عبداللّٰه جمعان، ص: ۷۳ [3] فتح القدیر: ۱/ ۵۱۴۔ بحوالۃ : سیاسۃ المال فی الاسلام، ص: ۷۲ [4] فتوح البلدان، ص: ۱۸۶۔ بحوالۃ : سیاسۃ المال فی الاسلام، ص: ۷۲