کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 413
لوٹے کہ آپ جو بھی لینا چاہیں ہم اسے دیں گے، لیکن اسے جزیہ کے علاوہ کوئی دوسرا نام دے دیں۔ بہرحال اس موقع پر علی رضی اللہ عنہ ، جن کی دینی بصیرت اور ان سے مشاورت کی عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بہت اہمیت تھی، انہوں نے دخل اندازی کی، اور عمر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ ان سے زکوٰۃ دوگنی مقدار میں وصول کی جائے جیسا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ کیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ذمیوں کی دلجوئی اور اس خدشہ کو مٹانے کے لیے کہ کہیں وہ غیر مسلم ممالک میں بھاگ کر چلے نہ جائیں آپ نے اس مشورہ کو مان لیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی یہ رائے بالکل مناسب موقع پر سامنے آئی، یعنی ایسے وقت میں کہ امیر المومنین نے اپنے سخت رویہ کے ذریعہ سے ان کے احساس برتری اور تکبر کو توڑ دیا تھا۔ اگر آپ ان کے مطالبہ کو شروع ہی میں مان لیتے تو ان کے دلوں میں بڑائی کا تصور باقی رہتا اور عین ممکن تھا کہ وہ عہد وپیمان کو توڑ دیتے اور مسلمانوں سے بدسلوکی کرتے۔ [1] ایک روایت میں بنو تغلب کے بارے میں یہ واقعہ منقول ہے کہ انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے انکار کردیا، پھر جزیہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا تو اس کے لیے بھی راضی نہ ہوئے، اور اسلامی سلطنت سے بھاگ نکلے، وہ روم کی سرزمین میں پناہ لینے کی کوشش میں تھے۔ چنانچہ نعمان بن زرعہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو خبر دی کہ اے امیر المومنین بنو تغلب عرب ہیں، جزیہ ادا کرنے سے ناک منہ چڑھاتے ہیں، ان کے پاس مال ودولت بھی نہیں ہے، وہ کھیتی باڑی کرنے اور مویشیوں کو پالنے والی قوم ہے، البتہ اس میں دشمن کو زیر کرنے کی صلاحیت ہے، لہٰذا ان کے ذریعہ سے اپنے خلاف دشمن کی مدد نہ کیجیے۔ چنانچہ آپ نے ان سے اس شرط پر صلح کرلی کہ وہ دوگنی زکوٰۃ ادا کریں گے۔ [2] اور فرمایا: ہمارے نزدیک یہ جزیہ ہے، تم جو چاہو اس کا نام رکھو۔ [3] تو بنو تغلب نے کہا: اگر یہ جزیہ عجمیوں کے جزیہ کی طرح نہیں ہے تو ہم راضی ہیں، اور ہم اپنے دین کی حفاظت کریں گے۔ [4] خلیفۂ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بنو تغلب سے زکوٰۃ قبول کرنے کا راز کیا تھا، اور کیا اسے زکوٰۃ کہا جائے یا جزیہ؟ اس اختلاف کا تعلق صرف نام تک محدود تھا، اسی لیے اس معاملہ میں نرمی برتی گئی اور مصلحت عامہ کے پیش نظر خلیفہ نے بھی اسے مان لیا اور اسے مان لینے کے پیچھے یہی خدشہ کار فرما تھا کہ کہیں بنو تغلب رومی سلطنت میں شامل نہ ہوجائیں اور ان کے اسلام قبول کرنے نیز مسلمانوں کی طرف سے دشمنوں کو زیر کرنے کی ان سے جو امید وابستہ ہے وہ بے کار نہ ہوجائے اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ایک عرب قوم تھی، اس کی غیرت وخود داری کا
[1] اہل الذمۃ فی الحضارۃ الإسلامیۃ، ص: ۴۳ [2] اہل الذمۃ فی الحضارۃ الإسلامیۃ، ص: ۴۳ [3] تاریخ الطبری: ۵/ ۳۰۔ ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری نے اس روایت کو سنداً ضعیف مانا ہے۔ دیکھئے: عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۶۷