کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 411
اور وہاں کے باشندوں کی قدرت وحیثیت کے اعتبار سے اس کی قیمت مختلف تھی۔ چنانچہ اسی تباین کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ نے عراق والوں پر چوبیس (۲۴) سے اڑتالیس (۴۸) درہم جزیہ مقرر کیا، جو ان سے ہر سال وصول کیا جاتا تھا اور اگر وہ جزیہ میں قیمت کے بدلے سامان دیتے مثلاً جانور اور دیگر اسباب تو انہیں قبول کرلیا جاتا۔[1] شام والوں پر چار دینار، اور مسلمانوں کی خوراک کے لیے ہر فرد پر دو مد گیہوں، اور تین قسط تیل مقرر کیا۔ جو لوگ چاندی کے مالک تھے ان پر ہر آدمی کے پیچھے چالیس درہم اور پندرہ صاع غلہ بطور جزیہ مقرر کیا۔ نیز مصر والوں پر ہر بالغ کے ذمہ دو دینار جزیہ واجب کیا، اِلا یہ کہ وہ بالغ فرد فقیر ونادار ہو۔[2]رہے یمن کے باشندے تو وہ عہد نبوت ہی سے اسلامی حکومت کے ماتحت تھے اور ان کے ہر فرد پر ایک دینار یا اس کے بدلے اسی کے برابر ایک معافر جزیہ دینا ضروری تھا۔ چند ضعیف روایات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ دورِ فاروقی میں بھی یمن والوں کے جزیہ کی مقدار میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور وہ پہلے کی طرح جزیہ دیتے رہے۔ ہر چند کہ اس باب کی روایات میں ضعف ہے تاہم ملکی رعایا کے احوال کی پوری رعایت، اور نبوی کارروائی میں عدم تبدیلی کی فاروقی سیاست سے وہ روایات قریب تر ہیں۔ [3] خلاصہ یہ کہ لوگوں کی وسعت، اور ریاستوں کی خوش حالی کے اعتبار سے جزیہ کی مقدار مختلف تھی اور اس کا فیصلہ حاکم وقت کے اجتہاد پر تھا کہ وہ ذمی افراد کی طاقت وحیثیت کو دیکھ کر، اور اسے مشقت وپریشانی کی کلفتوں سے بچا کر ان پر جزیہ نافذ کرے۔ [4] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ جزیہ کے محصلین کو حکم دیتے تھے کہ اس کی وصولی میں لوگوں پر نرمی کریں، چنانچہ ایک مرتبہ آپ کے پاس جب جزیہ کا بہت زیادہ مال آگیا تو آپ نے فرمایا: میرے خیال میں تم لوگوں کو ہلاک کررہے ہو؟ تو محصلین نے کہا: اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہے، ہم نے نرمی اور ان کی رضامندی سے لیا ہے۔ آپ نے پوچھا: کیا حقیقت میں بغیر کوڑے اور مار کی دھمکی دیے وصولی کی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: اللہ جل شانہ کا شکر ہے جس نے میری حکومت اور میری طاقت کو ظلم سے پاک رکھا۔ [5] جزیہ کی وصولی کے شعبہ میں مشہور افسران یہ تھے: عثمان بن حنیف، سعید بن حذیم اور دیگر ریاستوں کے امراء وگورنر مثلاً عمرو بن عاص اور معاویہ بن ابی سفیان وغیرہمرضی اللہ عنہم ۔ فقہائے اسلام اور علمائے شریعت نے قرآن، سنت اور خلفائے راشدین کے عمل کی روشنی میں جزیہ کے احکام وقوانین کو منظم شکل میں پیش کیا ہے، اس
[1] موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۲۳۹ [2] المعاہدات فی الشریعۃ الإسلامیۃ، د/ الدیک، ص: ۳۱۴ [3] فتوح البلدان، ص: ۱۴۳۔ الموارد المالیۃ، د/ یوسف عبدالمقصود، ص: ۲۲۸ [4] تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ، د/ جمیل المصری، ص: ۳۲۷