کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 410
جزیہ معاف کردیا۔ [1] مزید برآں اسے بیت المال سے اتنا تعاون دینے کا حکم صادر فرمایا جو اس کے اخراجات کے لیے کافی ہو۔ * اس وقت بھی جزیہ ساقط ہوجاتا ہے جب اسلامی حکومت ذمیوں کی حفاظت سے دست بردار ہوجائے۔ اس لیے کہ جزیہ انہی افراد پر ایک ٹیکس ہے جو اسلامی سلطنت کی نگہبانی میں زندگی گزار رہے ہوں۔ واضح رہے کہ اسلامی حکومت کو جزیہ اس لیے مطلوب ہے کہ ذمی افراد حکومت کے تیار کردہ عوامی فلاح وبہبود کے اسباب وذرائع (یعنی حکومتی سطح کی پبلک سروس) سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مزید برآں جزیہ حکومت کی نگرانی وحفاظت کے مماثل اور ملک وباشندگانِ ملک کی دفاعی ذمہ داری میں ان کی شرکت کے عدم وجوب کا متبادل (عوض) ہے۔[2] * جزیہ حکومتی نگرانی وحفاظت کا عوض ہے، اس کی دلیل ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کا یہ عمل ہے کہ جب اسلامی سلطنت کی شمالی حدود پر روم نے اپنا لاؤ لشکر اکٹھا کرلیا تو آپ نے مصالحت کے ذریعہ سے اسلامی حکومت کی اتباع قبول کرنے والے تمام شہروں وممالک کے حکام وافسران کو حکم دیا کہ وہاں کے باشندگان سے وصول کیے گئے تمام جزیہ وخراج کو واپس کردیں، اور ان سے کہہ دیں کہ ہم نے تم کو تمہارا مال اس لیے واپس کردیا ہے کہ ہمیں خبر ملی ہے کہ دشمن کی فوج ہم پر حملہ کرنے کے لیے تیار کھڑی ہے اور تمہاری ہم سے یہ شرط طے تھی کہ ہم تمہاری طرف سے دفاع کریں گے، لیکن اب ہم اس پر قادر نہیں ہیں۔ اس لیے ہم نے تم کو تمہارا مال واپس کردیا، آئندہ اگر اللہ تعالیٰ نے دشمن پر ہمیں فتح دی تو سابقہ شرط اور صلح پر عمل کریں گے۔ چنانچہ جب حکام نے ان کو یہ بات بتائی اور ان سے وصول کی ہوئی دولت انہیں واپس کردی تو ذمیوں نے اپنے مسلم حکام سے کہا: اللہ تعالیٰ تم کو دوبارہ ہمارا نگران ومحافظ بنائے، اور رومیوں پر تمہیں فتح عطا کرے، اس لیے کہ اگر وہ فتح یاب ہو گئے تو ہمیں کچھ نہ واپس کریں گے، ہمارے پاس بچا کھچا جو کچھ بھی ہے سب لے لیں گے، ہمارے لیے کچھ نہ چھوڑیں گے۔[3] * جزیہ ساقط ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افراد اسلامی حکومت کے مکلف کرنے پر بذاتِ خود اپنے دفاع ونگرانی کی ذمہ داری سنبھال لیں، جیسے کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کے بعد سراقہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے ’’طبرستان‘‘ کے باشندوں کے ساتھ کیا تھا۔ [4] جزیہ سے متعلق یہ بات واضح رہے کہ اس کی قیمت ومقدار متعین نہیں تھی، بلکہ ریاست کے حالات وظروف،
[1] صحیح البخاری، الجزیہ والموادعۃ، حدیث نمبر: ۳۱۵۷ [2] أہل الذمۃ فی الحضارۃ الإسلامیۃ، ص: ۴۲ [3] موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۲۳۸ [4] موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۲۳۸۔ بحوالہ المحلّٰی : ۷/ ۳۴۵ [5] موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۲۳۸۔ بحوالہ المحلّٰی: ۸/ ۵۱۱