کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 409
جو مجوسی بستے ہیں ان کو دیکھو اور ان سے جزیہ لو، اس لیے کہ عبدالرحمن بن عوف نے مجھے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ہجر‘‘ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا ہے۔ [1] * جزیہ آزاد اور عاقل وبالغ مردوں پر واجب ہے، عورتوں، بچوں اور غلاموں پر واجب نہیں ہے، اس لیے کہ وہ ذریت اور ماتحتوں میں سے ہیں۔ اسی طرح اس مسکین سے جزیہ نہیں لیا جائے گا جو دوسروں کے ٹکڑوں پر اپنی زندگی گزارتا ہو اور اسی طرح اپاہج سے بھی جزیہ نہیں لیا جائے گا۔ ہاں اگر اپاہج اور معذور کشادہ دست اور صاحب مال ہوں تو ان دونوں سے لیا جائے گا۔ * مذکورہ لوگوں کی طرح اندھے اور گرجاگھروں میں رہبانیت کی زندگی گزارنے والے افراد بھی وسعت والے ہیں، تو ان سے جزیہ لیا جائے گا اور اگر یہ لوگ مسکین ہوں تو کشادہ دست لوگ صدقہ وخیرات کے ذریعہ سے تعاون کریں گے اور ان سے جزیہ معاف ہوگا۔ [2] * موت کے ذریعہ سے جزیہ کا حکم ساقط ہوجاتا ہے، پس اگر ایسا آدمی وفات پاجائے جس پر جزیہ کی ادائیگی واجب تھی تو اس سے جزیہ معاف ہوجائے گا، اس لیے کہ جزیہ کا حکم زندوں کے لیے ہے، اور جب زندگی نہ رہی تو اس پر واجبی حکم بھی ساقط ہوگیا۔ * اسلام بھی جزیہ ساقط کرنے کا ایک سبب ہے۔ پس اگر ایسا آدمی اسلام لے آئے جس پر جزیہ دینا واجب تھا تو اس سے جزیہ معاف ہوجائے گا۔ باشندگان ’’الیس‘‘ کے دو ذمی آدمی اسلام لے آئے تو آپ نے ان کا جزیہ معاف کردیا۔ [3] اسی طرح ’’رقیل‘‘ نامی نہرین کا ایک جاگیردار اسلام لے آیا تو آپ نے اس کے لیے دو ہزار عطیہ مقرر کیا اور اس سے جزیہ معاف کردیا۔ [4] یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس سال ذِمی اسلام لائے گا اس پورے سال کا جزیہ اس سے ساقط ہوجائے گا خواہ شروع سال میں اسلام لایا ہو یا درمیان سال میں یا آخر سال میں۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر مُحَصِّل نے اپنے ہاتھ سے جزیہ وصول کیا اور پھر جزیہ دینے والا اسلام لے آیا تو وہ اسے لوٹا دے۔ [5] * فقیری آجانے پر بھی جزیہ ساقط ہوجاتا ہے، چنانچہ مال داری وکشادگی کی زندگی کے بعد اگر ذمی فقیر ہوجائے اور اس قدر عاجز ہوجائے کہ اس میں جزیہ دینے کی طاقت نہ ہو تو اس سے جزیہ ساقط ہوجائے گا۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے جب ایک انتہائی ضعیف وعمر دراز اور اندھے ذمی کو بھیک مانگتے دیکھا تو آپ نے اس سے
[1] اہل الذمۃ فی الحضارۃ الاسلامیۃ، حسن المِمّی، ص: ۳۹ [2] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۲۳۵ [3] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۲۳۵۔ نقلًا عن: مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱/ ۱۴۱ [4] صحیح البخاری، الجزیہ والموادعۃ، حدیث نمبر: ۳۱۵۶ ، ۳۱۵۷