کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 408
اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد خراج ہے جسے کفار کو ذلیل ورسوا کرنے کے لیے ان پر فرض کیا جاتا ہے۔ [1] اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صٰاغِرُوْنَ﴾ (التوبۃ:۲۹) ’’لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔‘‘ جزیہ اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ سے لیا جائے گا، یہ ایک متفق علیہ حکم ہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، اور یہی حکم ان لوگوں کا بھی ہے جو اہل کتاب سے ملتے جلتے ہیں، یعنی مجوسی لوگ۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ شروع شروع میں مجوسیوں سے جزیہ لینے کے بارے میں متردد تھے، لیکن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے آگاہ کرکے کہ آپ نے ’’ہجر‘‘ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا ہے اور آپ کے تردد کو ختم کردیا۔ [2] چنانچہ ابن ابی شیبہ وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ قبر نبوی اور منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کھڑے تھے تو آپ نے کہا: سمجھ میں نہیں آتا کہ مجوسیوں کے ساتھ کیا کروں؟ وہ اہل کتاب نہیں ہیں، تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: (( سُنُّوْا بِہِمْ سُنَّۃَ أَہْلِ الْکِتَابِ۔)) [3] ’’ان کے ساتھ اہل کتاب کا سا برتاؤ کرو۔‘‘ اور دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ مجوسیوں سے جزیہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، لیکن جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ہجر‘‘ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا ہے تو آپ نے ان پر جزیہ لاگو کیا۔ [4] علماء نے مجوسیوں سے جزیہ لینے کی علت یہ بتائی ہے کہ حقیقت میں وہ بھی اہل کتاب ہیں، بعد میں ان میں بگاڑ آیا کہ انہوں نے آگ کی پرستش شروع کردی۔ یہ واضح ہوجانے کے بعد آپ نے عراق والوں سے جزیہ لینا شروع کیا، نیز فارس کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا، اور جزء بن معاویہ کو خط لکھا کہ تمہارے زیر انتظام
[1] المصنف، ابن ابی شیبۃ: ۴/ ۱۳۴، ۱۳۵۔ یہ اثر صحیح ہے، بحوالہ: عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۹۵ [2] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۹۵۔ یہ اثر سنداً صحیح ہے۔ [3] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۹۵۔ یہ اثر سنداً صحیح ہے۔ [4] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۹۶۔ یہ اثر صحیح ہے۔ [5] فتح الباری: ۳/ ۳۱۳۔ عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۹۶ [6] الحیاۃ الاقتصادیۃ فی العصور الاسلامیۃ الأولی، د/ محمد بطابنۃ، ص: ۱۰۴ [7] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۹۶، ۱۹۷ [8] السیاسۃ الشرعیۃ، ابن تیمیہ، ص: ۱۱۳، ۱۱۴۔ المعاہدات فی الشریعۃ، د/ الدیک، ص: ۳۱۳