کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 407
آپ نے بارش اور نہروں کی سیرابی سے تیار ہونے والی کھیتی میں عشرِ زکوٰۃ لی اور مشینوں ودیگر آلات کے ذریعہ سے سیراب ہونے والی کھیتی میں نصف عشر زکوٰۃ لی۔[1]آپ کا یہ عمل سنت کے بالکل موافق تھا۔ آپ محصلین کو نصیحت کرتے تھے کہ جب کھجوروں کا تخمینہ لگاؤ تو باغات کے مالکان پر نرمی کرو۔ [2] نیز آپ نے اس شہد سے عشر کے حساب سے زکوٰۃ لی جسے اس وادی سے نکالا گیا جو حکومت کے زیر نگرانی ہو۔ [3] آپ کے دورِ خلافت میں گیہوں کی پیداوار زیادہ ہوگئی تو آپ نے اپنے ایام خلافت سے پہلے صدقہ فطر میں دیے جانے والی اصناف مثلاً جو، کھجور اور کشمش کی جگہ گیہوں سے نصف وزن میں صدقہ فطر دینے کی اجازت دے دی۔ [4] اس میں لوگوں کے لیے آسانی تھی اور زکوٰۃ میں بہترین مال بھی آرہا تھا، اگرچہ جنس میں تفاوت تھا۔ [5] آپ کے دور میں ہر سال اموال زکوٰۃ کی آمدنی کی مقدار غیر معروف وغیر متحقق ہے، جن لوگوں نے آمدنی کے اعداد وشمار کا ذکر کیا ہے وہ بہت مختصر اور جزوی نیز غیر دقیق ہیں۔ وہ اعداد وشمار مجموعی مقدار کا پتہ نہیں دیتے۔ بیان کیا گیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ’’ربذہ‘‘ کی زمین کو زکوٰۃ کے اونٹوں کے لیے چراگاہ بنا دیا تھا، آپ ان میں سے راہِ جہاد کے لیے سواریاں دیتے تھے، ہر سال چالیس ہزار سواریاں جہاد فی سبیل اللہ کے لیے مہیا کرتے تھے۔ [6] آپ کے دورِ خلافت میں جن افسران کے ذمہ اس ادارے کی نگرانی تھی کتب مراجع ومصادر میں ان کے نام یہ ہیں: انس بن مالک اور سعید بن ابوذباب رضی اللہ عنہ ’’سرات‘‘ کے ذمہ دار تھے، اور حارث بن مضرب العبدی، عبد اللہ بن الساعدی، سہل بن ابی حثمہ، مسلمہ بن مخلد انصاری، اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ’’بنو کلاب‘‘ کے ذمہ دار تھے۔ سعد الاعرج ’’یمن‘‘ اور سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ ’’طائف‘‘ کے والی تھے اور وہاں کی زکوٰۃ جمع کرتے تھے۔ [7] ۲۔ جزیہ: جزیہ ایک ٹیکس ہے جسے اہل کتاب ذمیوں سے (ان کی حفاظت وذمہ داری کے عوض) وصول کیا جاتا ہے۔ [8]
[1] صحیح سنن الترمذی، رقم الحدیث: ۶۲۸۔ امام ترمذی نے کہا کہ اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔ [2] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۹۴، ۱۹۵ [3] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۹۵۔ الأموال، ابن زنجویہ: ۳/ ۹۹۰ یہ اثر صحیح ہے۔ [4] الاموال، أبوعبید، ص: ۴۵۵۔ یہ اثر صحیح ہے، بحوالہ: الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۹۵ [5] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۹۵