کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 405
۱: زکوٰۃ: زکوٰۃ ارکانِ اسلام کا ایک اہم معاشرتی و تمدنی ستون ہے اور پہلا اسلامی آسمانی قانون ہے، مال دار مسلمانوں کے مال میں اسے فرض کیا گیا ہے، اسے غلہ، پھل، سونا، چاندی، سامانِ تجارت، اور چوپایوں میں معروف ومقررہ نصاب کے مطابق ان سے لے کر فقراء وضرورت مندوں کو دیا جائے گا، تاکہ مال داروں اور فقیروں میں اتحاد ویگانگت، باہمی معاشرتی غم خواری اور الفت ومحبت کا ماحول پیدا ہو، بہرحال زکوٰۃ ایسا شرعی فریضہ ہے جس کا تعلق مال سے ہے، اور مال جیسا کہ معروف ہے کہ زندگی کی شہ رگ ہے، اس دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو مال کے سلسلہ میں خوش قسمت ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اس سلسلہ میں بدقسمت ہیں، خلق الٰہی میں یہ تفاوت اللہ کی سنت ہے، اس کی سنت میں کوئی ردّ وبدل ہونے والا نہیں ہے۔ چونکہ انسانی زندگی کے نشیب وفراز میں مال کا بہت اثر ہے، اس لیے اسلام نے اپنے احکامات میں مال پر خصوصی توجہ دی ہے، زکوٰۃ کا غایت درجہ اہتمام کیا ہے، اس کے لیے مکمل، مبنی برحکمت اور پُر از رحمت نظام وضع کیا ہے، جو دلوں کو محبت وبھائی چارگی سے جوڑتا ہے۔ [1] اسی لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے راستہ وطرز عمل پر چلے اور منظم شکل میں ’’بیت الزکوٰۃ‘‘ قائم کیا، اور جب مفتوحہ ممالک کے بیشتر باشندے اسلام لے آئے تو آپ نے اسلامی حکومت وسلطنت کے مختلف علاقوں میں زکوٰۃ کی وصولی کے لیے محصلین کو بھیجا۔ اس وصول یابی میں عدل پروری کی صفت خلافت راشدہ کی امتیازی شان تھی، اس میں بیت المال کے حقوق میں کسی قسم کی گڑبڑ کا قطعاً کوئی خطرہ نہ تھا۔ چنانچہ اسی نظام میں عدل کی روح کو تازگی بخشتے ہوئے عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس محصل زکوٰۃ کو ڈانٹ پلائی جس نے زکوٰۃ میں زیادہ دودھ دینے والی اور بڑے تھن والی بکری وصول کی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’اس بکری کے مالک نے اسے بخوشی تمہیں نہیں دیا ہے، لوگوں کو آزمائش میں مت ڈالو۔‘‘ [2] باشندگان شام میں سے کچھ لوگ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: ’’ہمیں کچھ مال، گھوڑے اور غلام ملے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان میں زکوٰۃ دیں، اور اپنے اموال پاک کریں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’مجھ سے پہلے میرے دونوں ساتھیوں نے جو کیا ہے میں وہی کروں گا۔‘‘ پھر آپ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لیا، ان میں علی رضی اللہ عنہ بھی تھے، علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ بہتر ہے، بشرطیکہ مقررہ جزیہ کی شکل میں نہ ہو جو آپ کے بعد ان سے وصول کیا جائے۔ [3] ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری لکھتے ہیں کہ جب مسلمانوں کی ملکیت میں گھوڑوں اور غلاموں کی کثرت ہوگئی تو
[1] دراسات فی الحضارۃ الإسلامیۃ، احمد ابراہیم الشریف، ص: ۲۵۳ [2] دراسات فی الحضارۃ الإسلامیۃ، احمد ابراہیم الشریف، ص: ۲۵۴ [3] مبادی النظام الاقتصادی الإسلامی، د/ سعاد إبراہیم صالح، ص: ۲۱۳