کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 393
لگے، لوگوں نے کہا: یہ تو بہت معمولی چیز ہے۔ آپ نے کہا: نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ اللہ اس پھنسی نماز خم میں ضرور برکت دے گا۔ [1] طاعون کی بیماری میں مبتلا ہونے سے پہلے آپ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور یہ خطبہ دیا: اے لوگو! یہ بیماری تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے لیے رحمت ہے، اور تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت ہے، اور تم سے پہلے نیکوکاروں کی موت کا سبب ہے، ابوعبیدہ اللہ سے سوال کرتا ہے کہ اپنی طرف سے وہ اس کا (طاعون) حصہ اسے بھی دے دے۔ [2] چناں چہ جب آپ طاعون میں مبتلا ہوگئے تو مسلمانوں کو بلوایا، وہ آپ کے پاس آئے، آپ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا: میں تم کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں، اگر تم اسے مان گئے تو جب تک زندہ رہو گے اور مرنے کے بعد بھی بخیر وعافیت رہو گے، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، روزے رکھو، صدقہ وخیرات کرو، حج وعمرہ کرو، آپس میں محبت اور صلہ رحمی کو رواج دو، اپنے حکمرانوں سے سچ بات کہو، ان کو دھوکہ نہ دو، یاد رہے! دنیا تمہیں غافل نہ بنا دے، کیونکہ ایک شخص اگرچہ ہزاروں سال کی عمر سے نواز دیا جائے تاہم اسے اسی چوکھٹ یعنی موت سے گزرنا ہے جس سے اس وقت میں گزر رہا ہوں، اور تم دیکھ رہے ہو اللہ نے تمام انسانوں پر موت لکھ دی ہے، سب یقینا مرنے والے ہیں، ان میں سب سے ہوشیار وہ ہے جو اپنے ربّ کا سب سے زیادہ مطیع، اور آخرت کے لیے سب سے زیادہ توشہ تیار کرنے والا ہے۔ پھر آپ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا: اے معاذ! لوگوں کو نماز پڑھاؤ، آپ نے سب کو نماز پڑھائی، اور پھر ابوعبیدہ رحمہ اللّٰہ ومغفرتہ ورضوانہ کی وفات ہوگئی۔ [3] اس کے بعد معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ لوگوں میں کھڑے ہوئے اور کہا: ’’اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو اور سچے دل سے توبہ کرو، کیونکہ بندہ اگر اللہ سے اس حال میں ملتا ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والا ہو تو اللہ پر اس کا حق ہوتا ہے کہ وہ اس کے گناہوں کو بخش دے، اور جس آدمی پر قرض ہو وہ اسے ادا کردے، کیونکہ انسان اپنے قرض کے بدلے رہن پر ہوتا ہے۔ تم میں سے جس نے کسی مسلمان سے لڑائی کی حالت میں صبح کی اسے چاہیے کہ اس سے جا کر ملے، اور صلح کرلے، اور اس سے مصافحہ کرلے، کیونکہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا گناہ بہت بڑا ہے۔ اے مسلمانو! تمہیں ایک عظیم شخصیت کی موت کا صدمہ پہنچا ہے۔ اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے نرم طبیعت والا، نیک وصاف دل، کینہ وبرائی سے دور، عوام کے لیے خیر خواہ اور شفقت ومہربانی والا، ان سے بڑھ کر کوئی اور ہو، پس تم ان کے لیے رحمت الٰہی کی دعا کرو، پھر اِن پر نماز جنازہ کے لیے جمع ہوجاؤ،
[1] الخلفاء الراشدون، النجار، ص: ۲۲۵۔ تاریخ الطبری: ۵/ ۳۶۔ [2] تاریخ الطبری: ۵/ ۳۵