کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 388
بعمی سقی اللّٰه الحجاز وأہلہ عشیۃ یستسقی بشیبتہ عمر ’’میرے چچا (کی دعاؤں) کے ذریعہ سے اللہ نے حجاز اور اس کے باشندوں کو شام کے وقت سیراب کردیا، جب اس کے بڑھاپے میں عمر رضی اللہ عنہ اس کی دعاؤں کے وسیلہ سے پانی کا سوال کررہے تھے۔‘‘ توجہ بالعباس فی الجدب راغبًا إلیہ فما رام حتی أتی المطر ’’قحط کے موسم میں (عمر رضی اللہ عنہ ) عباس رضی اللہ عنہ کو شفیع بنا کر دعا کرتے ہوئے اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے یہاں تک کہ بارش آگئی۔‘‘ ومنا رسول اللّٰه فینا تراثہ فہل فوق ہذا للمفاخر مفتخر ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے تھے، ہم میں آپ کی میراث ہے، کیا اس سے بڑھ کر فخر کرنے کی کوئی چیز ہے۔‘‘ اور حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: سأل الامام وقد تتابع جدبنا فسقی الغمام لغرۃ العباس ’’امام (عمر رضی اللہ عنہ ) نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا اس حال میں کہ ہم پر مسلسل قحط کی مار تھی، تو بادل نے عباس کی چمک سے بارش برسائی۔‘‘ عم النبی وصنو والدہ الذی ورث النبی بذلک دون الناس ’’آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور آپ کے والد کے حقیقی بھائی، دوسروں کے علاوہ، وہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہوئے۔‘‘ أحیا الإ لہ بہ البلاد فاصبحت مخضرۃ الأجناب بعد الیاس[1] ’’اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے شہروں وزمینوں کو زندہ کردیا، اور وہ شہر مایوسی کے بعد ہر جانب سے سرسبز ہوگئے۔‘‘
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۱۰۱۰ [2] اس روایت میں اجداد کا ذکر محل نظر ہے۔ وفات شدہ لوگوں سے توسل صحیح نہیں ہے۔ [3] الفاروق عمر بن خطاب، محمد رشید رضا، ص: ۲۱۷۔ اس روایت کی سند تحقیق طلب ہے۔