کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 381
بدویوں، اور دیہات کے باشندوں کو آٹا گھر سے خوراک تقسیم کرتے تھے، آٹا گھر ایک مالی ادارہ تھا جس کے سامان کو دور فاروقی میں ایام قحط میں وفود مدینہ میں تقسیم کیا جاتا تھا، اس میں آٹا، ستو، کھجور اور کشمش وغیرہ کھانے کی چیزیں تھیں، مصر، شام اور عراق سے پہنچنے سے پہلے یہی چیزیں ان میں تقسیم ہوتی تھیں، یہ آٹا گھر بحرانی حالت میں کافی بڑا بنا دیا گیا، تاکہ دسیوں ہزار لوگ جو تقریباً نو مہینے تک مدینہ آتے رہے اور بارش سے محروم رہے وہ سب اس کی خوراک سے مستفید ہوسکیں۔ [1] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حکمت عملی حکومتی اداروں کی تعمیر و ترقی کے بارے میں دور اندیشی کی بہت بڑی دلیل ہے، خواہ یہ ادارے مالیاتی ہوں یا اور کوئی۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی یہ متواضع شان کہ آپ بذاتِ خود پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ان کی خدمت کرتے تھے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ ابن حنتمہ (عمر رضی اللہ عنہ ) پر رحم فرمائے! میں نے عام الرمادہ میں دیکھا کہ اپنی پیٹھ پر اناج سے بھری ہوئی دو بوریاں اور ہاتھوں میں تیل سے بھرا ہوا ایک ڈبہ اٹھائے ہوئے تھے، وہ اور اسلم باری باری اسے اٹھاتے اور چلتے، جب آپ نے مجھ کو دیکھ لیا تو کہا: اے ابوہریرہ کہاں سے آرہے ہو؟ میں نے کہا: قریب ہی سے، پھر میں نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا، اور اسے لے کر ہم سب ’’ضرار‘‘ پہنچے، وہاں ہماری ملاقات بیس گھرانوں پر مشتمل ایک جماعت سے ہوئی۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: تم لوگوں کا یہاں کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے کہا: مشقت وتنگ دستی کھینچ لائی ہے اور اس کے بعد انہوں نے مردار جانور کا چمڑا جسے وہ کھاتے تھے اور بوسیدہ ہڈیوں کا سفوف جسے وہ پھانکتے تھے، اسے ہمیں دکھایا، یہ دیکھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر پھینک دی اور ان کے لیے کھانا پکانے اور کھلانے میں مشغول ہوگئے، یہاں تک کہ سب سیراب ہوگئے۔ پھر اونٹوں کو لانے کے لیے اسلم کو مدینہ بھیجا، وہ اونٹوں کو لائے، آپ نے ان کو اونٹوں پر سوار کیا اور ’’جبانہ‘‘ لے جا کر ٹھہرایا، پھر انہیں کپڑا دیا جسے انہوں نے زیب تن کیا، اس طرح آپ برابر ان کے پاس اور دوسرے مصیبت زدہ لوگوں کے پاس جاتے رہے اور خبر گیری کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے اس مصیبت کو ہٹا لیا۔ [2] آپ عشاء کی نماز پڑھتے پھر اپنے گھر واپس ہوتے اور برابر نماز پڑھتے، رات کا آخری وقت آجاتا تو گلیوں میں گشت کے لیے نکلتے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ سے ایک رات بوقت سحر کہتے ہوئے سنا، اے اللہ! میرے ہاتھوں امت محمدیہ کو ہلاک نہ کر، اور کہتے: ’’اے اللہ قحط زدگی سے ہمیں ہلاک نہ کر اور ہم سے اس مصیبت وآزمائش کو دور کردے،‘‘ اور آپ ان کلمات کو بار بار کہہ کر دعا مانگتے۔ [3]
[1] فن الحکم، ص: ۷۱۔ طبقات ابن سعد: ۳/ ۳۱۵ [2] تاریخ الذہبی: ۲۷۴۔ کرکور ایک کھانے کا نام ہے اور عصائد ایک طرح کا کھانا، جس میں آٹے کو گھی میں گوند کر پکاتے ہیں ۔ [3] الکفاء ۃ الإداریۃ، د/ عبداللّٰه قادری، ص: ۱۰۷ [4] الکفاء ۃ الإداریۃ، د/ عبداللّٰه قادری، ص: ۱۱۵