کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 372
کہ ابتدائے اسلام سے آج تک امت مسلمہ کو اس سے بہتر وپرسکون فضا نہ ملی تھی، تمام ممالک میں بڑی بڑی فتوحات پر اللہ ہی لائق ستائش ہے۔ شکر گزاروں کا شکر، ذکر الٰہی کے شیدائیوں کا ذکر اور اطاعت شعاروں کی کثرت اطاعت وعبادت اللہ کی لا تعداد اور عظیم الشان نعمتوں کے بالمقابل ناکافی ہیں، بغیر اللہ کی مدد، رحمت اور مہربانی کے ان کا حق کماحقہ ادا نہیں کیا جاسکتا، پس ہم اللہ تعالیٰ سے جس نے ہمیں ان نعمتوں سے آزمایا ہے اس کی اطاعت اور رضا جوئی کے لیے دعا کرتے ہیں، جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔ اے اللہ کے بندو! تم اپنے اوپر نعمتوں کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی آزمائش کو یاد کرو اور اپنی عام مجالس میں، یا دو دو آدمی رہو یا تنہا رہو، ہمہ وقت اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کیا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّٰهِ (ابراہیم:۵) ’’اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال اور انہیں اللہ کے احسانات یاد دلا۔‘‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ (الانفال:۲۶) ’’اور یاد کرو جب تم تھوڑی تعداد میں تھے اور زمین میں کمزور تھے۔‘‘ لہٰذا جب تم کمزور تھے، دنیا کی بھلائیوں سے محروم تھے اگر اس وقت حق پر قائم تھے، اس پر تمہارا ایمان تھا، تم اس میں راحت محسوس کرتے تھے، اللہ اور اس کے دین کی تمہیں معرفت حاصل تھی اور موت کے بعد بھی تم اس میں خیر کی امید رکھتے تھے، تو یہ بہت اچھی بات تھی۔ حالانکہ تم قبل ازیں بہت تنگ زندگی بسر کرتے تھے، اور اللہ کی معرفت سے بالکل ناواقف تھے، پس اگر یہ اسلام جس نے تمہیں تنگ زندگی اور اللہ کی عدم معرفت سے نجات دی، اس کے ساتھ تمہیں دنیا داری نہ حاصل ہوسکے، اور آخرت پر تمہارا کامل یقین وپختہ بھروسا ہو جہاں پر سب کو لوٹ کر جانا ہے، اور کٹھن زندگی وتنگ معیشت کے ساتھ تم کو یہ آزادی حاصل ہو کہ اسے اپنی ذات کے فائدہ تک محدود رکھو، یا اپنے حصہ پر دوسروں کو ترجیح دو تو ایسی دنیا داری کو بھول جاؤ، کیونکہ تمہیں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی میسر ہو رہی ہے، اور تم میں سے جس کی یہ خواہش ہو کہ اسے دنیا داری کا پورا حصہ مل جائے تو سن لو! میں تم سب کو اللہ کا خوف یاد دلاتا ہوں جو تمہارے دلوں کے درمیان حائل ہے، مگر یہ کہ اس کا حق پہچان لو، اس کے تقاضوں کو پورا کرتے رہو، اس کی اطاعت پر خود کو مجبور کرتے رہو، اور نعمتوں کو پا کر خوشی ومسرت کے ساتھ تمہیں ان کے غلط استعمال کے برے نتائج اور ان کے چھن جانے کا