کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 356
چند اشعار کہے، وہ اشعار حقیقت میں بے حد واہیات ہیں اور ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ فمن مبلغ الحسناء أن حلیلہا بمیسان یسقی فی زجاج وحنتم ’’(میری) خوب صورت بیوی کو کوئی بتا دے کہ میسان میں اس کے شوہر کو شیشے کے جام اور کدو کے برتن میں شراب پلائی جاتی ہے۔‘‘ إذا شئت غنتنی دہاقین قریۃ وصناجۃ تحدوا علی کل میسم ’’اگر تو چاہتی ہے کہ گاؤں کے دہقانوں اور حسن وجمال کے پیکروں کے پیچھے پیچھے جھانجھ بجانے والوں سے بے نیاز کردے۔‘‘ إذا کتن ندمانی فباء لا کبر اسقنی ولا تسقنی بالأصغر المتئلم ’’اور اگر جام جم پلانے میں تو میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو بڑے پیمانے سے پلا، اور ٹوٹے ہوئے چھوٹے پیالے سے مت پلا۔‘‘ لعل أمیر المومنین یسوؤ ہٗ تناد منا فی الجوشق المنہدم ’’شاید کہ امیر المومنین اسے برا سمجھیں (لیکن پھر بھی) تو ہمیں کسی بوسیدہ محل میں شراب سے سیراب کر۔‘‘ جب عمر رضی اللہ عنہ نے ان اشعار کو سنا تو کہا: اللہ کی قسم، اس نے میرے ساتھ برا برتاؤ کیا، پھر آپ نے ان کو معزول کردیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے نعمان کی اس معزولی پر تعجب وحیرت نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ نعمان اپنی قوم کے امیر اور ان کے لیے نمونہ نیز ان کی مسجد کے امام تھے۔ یہ اشعار اگرچہ کسی ایسے آدمی کی زندگی کی تصویر نہیں پیش کرتے جو اوائل مہاجرین میں سے ہو، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسلامی اقدار وتعلیمات سے متصادم ہیں، اسی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ نے ان اشعار کو لغو قرار دیا اور ان کے کہنے والے کو سزا دی۔ [1] یہ ہیں عمر رضی اللہ عنہ کی تنقید کے نمایاں خدوخال، جس میں آپ نے منفرد مقام حاصل کیا۔ یہ تنقیدی رجحانات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ادبی تنقید اپنی ترقی کے ابتدائی ادوار میں اصولوں پر قائم تھی، اسی طرح آپ کا تنقیدی کلام آپ کے ادبی رجحان کا صحیح رخ بھی متعین کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے ادب کا معیار متعین
[1] عمر بن الخطاب، د/ محمد أبو النصر، ص: ۲۵۴ [2] ادب صدر الاسلام، ص: ۹۶ [3] عمر بن خطاب ، أبو النصر ، ص ۲۵۵ تا ۲۶۲۔ [4] میسان، عراق کا ایک شہر ہے جو چھوٹے چھوٹے گاؤں اور کھجور کے باغات سے گھرا ہے۔ بصرہ اور واسط کے درمیان واقع ہے۔