کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 354
آپ کی یہ گرفت ایمان کے صیقل کیے ہوئے اس شعری ذوق پر مبنی تھی کہ مومن کے دل میں ایمان بڑھاپے سے پہلے اور بعد، دونوں حالتوں میں زیادہ مؤثر ہے، اور اس کی اہمیت وتاثیر کے پیش نظر اس شعری نص میں اسے ’’شیب‘‘ سے پہلے ذکر کرنا مناسب ہے، اور شعر اسی خوبی سے خالی ہے۔ [1] کلام کی بہترین ترتیب وتقسیم: عمر رضی اللہ عنہ شعر کی فنی خوبیوں کو دیکھ کر کافی مسرت کا اظہار کرتے تھے، بشرطیکہ وہ فنی خوبیاں طبیعت ومزاج کو موہ رہی ہوں اور پھر اس مسرت کی ترجمانی اس طرح کرتے کہ اسے مزے لے لے کر پڑھتے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عبدہ بن طیب کے قصیدہ کا یہ پہلا مصرع پڑھا: ہل حبل خولۃ بعد الہجر موصول أم أنت عنہا بعید الدار مشغول ’’کیا جدائی کے بعد خولہ سے ملنے کی کوئی امید ہے یا تو اس سے دور ہی رہ کر کسک بھری زندگی گزارے گا؟‘‘ اور جب اس شعر پر پہنچے: والمرء ساع لأمر لیس یدرکہ والعیش شحً وإشفاق وتأمیل ’’آدمی کئی ایسی چیزوں کے لیے کوشش کرتا ہے جس کو وہ پاتا نہیں ہے، حالانکہ بخیلی، لالچ اور آس لگانے کا نام ہی زندگی ہے۔‘‘ تو آپ نے حسن تقسیم وتفصیل کو دیکھ کر تعجب سے کہا: ’’یقینا بخیلی، لالچ اور آس لگانے کا نام ہی زندگی ہے۔‘‘ [2] اور ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ نے زہیر کا یہ شعر پڑھا: فان الحق مقطعہ ثلاث یمین أو نفار أو جلاء ’’حق دلانے والی تین ہی چیزیں ہیں: قسم، یا (حق لینے کے لیے) مقدمہ لڑنا، یا حق کے موافق واضح دلیل۔‘‘
[1] عمر بن الخطاب، د/ محمد أبو النصر، ص: ۲۵۱ [2] سنن دارمی: ۱/ ۹۔ بحوالۂ عمر بن الخطاب، د/ محمد أبو النصر، ص: ۲۵۲ [3] عمر بن الخطاب، د/ محمد أبو النصر، ص: ۲۵۲ [4] شرح نہج البلاغۃ، ابن أبی الحدید: ۳/ ۱۱۲