کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 350
عربی ادب کے اس ابھرتے ہوئے دور میں یہی نصوص آپ کے نزدیک اس عہد کی ثقافت کا اصل نتیجہ ہوتے تھے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ ہم ان اسباب واساسیات کا احاطہ کریں جنہوں نے آپ کی تنقیدی حس کو صیقل کیا، اور آپ کے ملکہ کو پروان چڑھایا اور اس جائزہ میں آپ کی جاہلی واسلامی دونوں زندگیاں ایک ہی نقطہ نظر یعنی ادب وبلاغت نیز ان کی تنقید وتصویب سے ہمارے سامنے ہوں۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اپنی جاہلی زندگی میں جاہلی اقدار وروایات کے محافظوں میں سے ایک محافظ تھے۔ قریش میں آپ کا اونچا مقام تھا اور قریش پر ہی اس وقت عربوں کی نگاہیں لگی رہتی تھیں اور وہی عربوں میں معزز وفیصل مانے جاتے تھے، اسلام آنے کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں بھی انہی کی اہمیت تھی۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اپنی جاہلی اور اسلامی زندگی میں عربی شاعری میں مہارت رکھتے تھے، مشرکین، مرتدین اور دشمنانِ اسلام نے دین حنیف کے خلاف جو بھی اشعار کہے تھے آپ انہیں مکمل یاد کیے ہوئے تھے۔ آپ جاہلیت اور اسلام دونوں ادوار میں عربوں کے عقائد، تاریخ، انساب، سلوک اور علم کے احوال سے خوب اچھی طرح واقف تھے۔ ان چیزوں کی معلومات نے عربی کلام میں تنقید اور اس پر رائے دہی کے لیے آپ کا راستہ ہموار کردیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ اپنے بچپن ہی سے ادبی مجالس میں شریک ہونے کے حریص تھے، یہ مجالس عموماً رات کو منعقد ہوتی تھیں، ان میں شعری کلام پیش کیے جاتے اور ادبی ذوق، ادبی نصوص، نیز تنقید ورائے زنی کا تبادلہ ہوتا تھا اور جب آپ اسلام لے آئے تو جس طرح لوگ عمدہ پھل چنتے ہیں اسی طرح عمدہ کلام اور بہترین باتوں کو منتخب کرنے والے افراد کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، نماز اور جہاد فی سبیل اللہ کے بعد دنیا کی اپنی تیسری مشغولیت شمار کرتے تھے۔ آپ ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی مجالس میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ جب آپ خلیفہ تھے تو مسجد کے ایک کنارے مسجد سے متصل ہی ’’بطحاء‘‘ کے نام سے ایک خالی جگہ گھیر دی تھی جہاں شعر وادب سے دلچسپی رکھنے والے اور اسے سیکھنے والے آیا کرتے تھے۔ [1] صحابی رسول عمر رضی اللہ عنہ تنقیدی دسترس، گہری نظر، نکتہ داں ذہانت، وہبی ذکاوت اور روشن دماغ صلاحیت کے مالک ہونے کی وجہ سے صائب الرائے اور سخن شناس واقع ہوئے تھے، تنقیدی لغزشوں سے آپ کا کلام پاک ہوتا تھا، ساتھ ہی آپ جو کچھ بھی پڑھتے یا سنتے تھے، اس کا آپ کو پورا احساس ہوتا تھا، آپ کے احساس سخن شناسی، اور عربی ادب کی تہ تک پہنچنے ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ ادبی نصوص اور ان کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے جمالیاتی اقدار یا شعور وآگہی کو جگانے والے معانی کو مزے لے لے کر پڑھتے تھے۔ [2] یہ اقدار و معانی آپ کے دل ودماغ کو
[1] عمر بن الخطاب، د/ محمد أبو النصر، ص: ۲۳۰ [2] أدب صدر الإسلام، ص: ۹۰