کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 348
جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار سنے تو آپ کا دل پسیج گیا اور آپ رونے لگے، اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا کہ شیبان کو واپس بھیج دو، چنانچہ انہوں نے شیبان کو ان کے باپ کے پاس بھیج دیا۔ [1] یہ اپنی نوعیت کا کوئی آخری واقعہ نہ تھا کہ جس کے بارے میں شعر سن کر عمر رضی اللہ عنہ متاثر ہوئے ہوں، بلکہ اس سے ملتے جلتے کئی واقعات ہیں، انہی میں سے ایک واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں خراش بن ابی خراش ہذلی نے ہجرت کی، مسلمانوں کے ساتھ معرکہ میں شریک ہوئے اور دشمن کی زمین میں کافی دور تک گھستے چلے گئے، ابوخراش مدینہ آئے، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ کر اپنے بیٹے سے ملاقات کی شدت اشتیاق کا اظہار کیا، اور کہا کہ وہ ایسا آدمی ہے جس کی بیوی فوت ہوچکی ہے اور بھائی قتل ہوچکے ہیں، اب اس کے بیٹے خراش کے علاوہ اس کا کوئی دوسر امعین ومددگار نہیں ہے، اور وہ بھی مجھے چھوڑ کر جنگ پر چلا گیا ہے اور پھر یہ اشعار پڑھنے شروع کیے: ألا من مبلغ عنی خراشا وقد یأتیک بالنبأ البعید ’’کیا خراش کو کوئی میرا پیغام پہنچانے والا ہے، تیرے پاس کوئی دور کا آدمی اس کی خبر لے کر آئے گا۔‘‘ وقد تأتیک بالأخبار من لا تجہز بالحذاء ولا تزید ’’اور ممکن ہے تیرے پاس ایسا آدمی خبریں لائے جو ننگے پاؤں اور بغیر ساز و سامان والا ہو۔‘‘ تنادیہ لیعقبہ کلیب ولا یأتی لقد سفہ الولید ’’(اے نفس) تو اسے بلاتا ہے تاکہ غم کا مارا اسے اپنا جانشین بنائے، حالانکہ وہ آنے والا نہیں ہے، یقینا وہ لڑکا پاگل ہوگیا ہے۔‘‘ فرد أناء ۃ لا شیء فیہ کان دموع عینیہ الفرید ’’(اس کے دل نے) بڑی سرد مہری سے جواب دیا کہ اسے (یاد کرنے سے) کوئی فائدہ نہیں ہے، (ایسا خاموش جواب) گویا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے آنسو چمک دار موتی ہیں۔‘‘ وأصبح دون غابقۃ وأمسی جبال من جرار الشام سود
[1] عمر بن الخطاب، د/ محمد أبوالنصر، ص: ۲۸۸