کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 346
’’میں عمر فاروق کے خلاف اپنے ربّ سے مدد طلب کروں گا، وہی جبل عرفات تک حاجیوں کو لے جانے والا ہے۔‘‘ وأدعو اللہ مجتہدًا علیہ ببطن الأخشبین إلی دقاق ’’مکہ کے دونوں اخشب پہاڑوں کے درمیان کہیں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے پوری طاقت سے عمر کے لیے بددعا کروں گا۔‘‘ إن الفاروق لم یردد کلابًا علی شیخین ہا مہما زواق ’’اگر عمر فاروق نے کلاب کو اس کے بوڑھے والدین کے پاس جو مرنے کے قریب ہیں واپس نہ لوٹایا۔‘‘ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بہت روئے، اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کلاب کو تلاش کرکے فوراً واپس بھیجیں۔ انہوں نے فوراً انہیں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، ان سے ملاقات کی، اور پھر آپ نے امیہ کو بلا بھیجا اور اس سے آپ نے کچھ دیر بات کی، اور اس سے پوچھا کہ اس کے نزدیک اس وقت سب سے محبوب کیا چیز ہے؟ تو امیہ نے کہا: کلاب، میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس موجود ہو اور میں اسے سونگھ لوں، تب آپ نے کلاب کو سامنے آنے کا حکم دیا، کلاب کو دیکھ کر بوڑھا خوشی سے کود پڑا، اور اپنے بیٹے کو سونگھتے ہوئے خوشی کے آنسو بہانے لگا۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی یہ دیکھ کر رونے لگے، [1] اور جو دوسرے لوگ موجود تھے وہ بھی رونے لگے اور سب نے کلاب سے کہا کہ تم اپنے والدین کے پاس ہی رہو، اور جب تک دونوں زندہ ہیں انہی میں جہاد کرو، جب وہ نہیں رہیں گے پھر تمہاری مرضی میں جو آئے سو کرنا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ان کا عطیہ دینے کا حکم دیا، اور ان کے باپ کے ساتھ بھیج دیا۔ پھر دیگر سوار بھی ان کے باپ کے شعر کو پڑھ کر گنگنانے لگے۔ اور جب کلاب کو خبر ملی کہ دوسرے لوگ ان کے باپ کے شعر کو گنگناتے ہیں تو انہوں نے یہ شعر کہا: لعمرک ما ترکت أبا کلاب کبیر السن مکتئبا مصابا ’’اللہ کی قسم ! میں نے سخت بڑھاپے کے وقت رنجیدہ اور مصیبت کی حالت میں ابوکلاب کو نہیں چھوڑا۔‘‘ و أما لا یزال لہا حنین تنادی بعد رقدتہا کلابا