کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 344
’’تو اپنے باپ سے اس حال میں جدا ہوا کہ اس کے دونوں ہاتھ کانپ رہے ہیں، اور تیری ماں کو پانی کا ایک گھونٹ بھی اچھا نہیں لگتا۔‘‘ تنفض مہدہ شفقًا علیہ وتجنبہ أبا عرہا الصعابا ’’ماں اپنی مامتا سے اس کے بچپن کو خوشگوار کرتی رہی اور اسے اپنے اونٹوں کے خطرات ومشکلات سے بچاتی رہی۔‘‘ فإنک قد ترکت أباک شیخًا یطارق أینقًا شربًا طرابا ’’تو نے اپنے باپ کو اس وقت داغ مفارقت دیا جب کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے اور رنج وغم کا قصیدہ پڑھتے ہوئے کمزور اونٹوں کو ہانکتا ہے۔‘‘ إذا ارتعشن أرقا لًا سراعًا أثرن بکل رابیۃ ترابا ’’جب وہ اونٹ کمزوری سے ڈگمگاتے ہوئے تیزی سے چلتے ہیں تو ہر ٹیلے سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔‘‘ طویلًا شوقہ یبکیک فردًا علی حزن ولا یرجو الإ یابا ’’اس سے ملنے کی شدید خواہش رنج وغم کی وجہ سے تنہائی میں تجھے رلاتی ہے، اور اب وہ (باپ) اس (کلاب) کے لوٹنے کی امید نہیں رکھتا۔‘‘ فإنک والتماس الأجر بعدی کباغی الماء یتبع السرابا[1] ’’تو اور میرے بعد ثواب کی جستجو کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ پیاسا آدمی سراب کے پیچھے دوڑتا ہے۔‘‘ … امیہ اندھا ہوچکا تھا، اس کا راہبر اس کا ہاتھ پکڑ کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، اس وقت آپ مسجد میں تشریف فرما تھے، اس نے وہاں یہ شعر سنائے: أعاذل قد عذلت بغیر علم وما تدرین عاذل ما ألاقی